پچھلے 72 سالوں اور موجودہ 72 دنوں سے میرے بھولے ظلم زدہ فاقہ زدہ اور خوفزدہ عوام چکی کے جن دو پاٹوں میں پیسے جا رہے ہیں وہ چکی آٹا نہیں گھن کے ڈ ھیر نکال رہی ہے جو میرے عوام کی صحت اور سکون کو چاٹ رہے ہیں مگر چکی چلانے والے ہاتھ آنکھیں بند کئے اپنی ہی دُھن میں چکی چلائے جا رہے ہیں۔
آج میں اپنے لوگوں کو کچھ اچھے اچھے مختلف شعرا کے شعر بتائوں گی تاکہ مار مار کر سلائی جانے والی اُن کی جمالیاتی حِس آنکھیں ملتے ہوئے جاگ جائے پھر کچھ سچے لطیفے سنائوں گی تاکہ ان کو سننے کی حسرت پوری ہو جائے۔ خدا کرے میرے یہ د وا میرے عوام کو صحت اور سکون دینے میں شافی ثابت ہو (وقتی سہی)۔ اپنے وطن کے اندر کے حالات کی مکمل تصویر کشی میر مصحفی کے ایک شعر نے بیان کر دی ہے
؎مصحفی ہم تو سمجھتے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رُفو کا نکلا
آپ کو یاد ہو گا جب 1965ء میں ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو صدر ایوب خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’میرے ہم وطنو آج ہمارے دشمن نے ہم پر حملہ کر دیا ہے آپ حوصلہ رکھیں ہم سب مل کر دشمن کے آگے سیسہ پلائی ہوئی د یوار بن جائیں گے ‘‘ آج کی صورتحال میں یہ خطاب کچھ یوں ہو گا۔ ’’میرے ہم وطنوں آج ہم پر ہمارے ہی ہم وطنو نے حملہ کر دیا ہے حوصلہ ختم ہو گیا ہے آئیے سب مل کر سیسہ پی لیتے ہیں‘‘۔ اب ایک لطیفہ سن لیں۔ ایک چور مجرم جب عدالت میں پیش کیا گیا تو جج اور مجرم کے درمیان کا مکالمہ کچھ یوں تھا ۔ جج صاحب۔ ہاں بھئی اللہ نواز ولد شریف الدین یہ تم نے ایک ہی د ن میں پانچ گھروں میں کیسے چوری کر لی؟
مجرم۔ جناب میں شروع ہی سے بہت محنتی تھا۔
جب عرب بادشاہوں کے بچے کسی غیر ملکی مخصوص کھانے یا کھلونے کی ضد کرتے ہیں تو صحرائے عرب سے چارٹرڈ طیارے اڑان بھر کر بچوں کے آگے حاضر کر دیتے ہیں۔ کُھل جا سِم سِم کی یہ سہولت جب میں نے سُنی تو مجھے کسی شاعر کے دو خوبصورت ترین شعر یاد آ گئے۔
اِک ماں اُبالتی رہی پتھر تمام رات
بچے فریب کھا کے چٹائی پہ سو گئے
نِگاہ پڑ نہ جائے یتیم بچوں کی
ذرا چھپا کے کھلونے دکان میں رکھنا
آجکل اپنے پیرانہ سال بیمار سیاستدانوں کو حُبِ حکومت میں بگٹٹ دوڑتے دیکھتی ہوں تو غالب کا ایک شعر یاد آ جاتا ہے (تبدیلی کے لیے مرزا غالب سے معذرت خواہ) ۔ اصلی شعر یوں ہے
؎نہ ہاتھ باگ پر ہیں نہ پائوں رکاب میں
سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کے
تبدیلی کے ساتھ …
نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پائوں رکاب میں
سوتا ہوں ہاتھ گردن کُرسی میں ڈال کے
وطن کے فراق اور اسکے حالات نے شدت جذبات میں مجھے بھی باقاعدہ شاعر بنا دیا ہے۔ اس نئی عطا پر اللہ اور ملک کی شکر گزار ہوں۔ جب وطن میں حکومت کے لتے لینے کا طوفان اٹھا ہوا تھا تو مجھ پر کچھ اشعار باقاعدہ حملہ آور ہوگئے۔ سنیئے
سج گیا بازار پھر ایمانوں کا ایوانوں میں
صرف شور بھاؤ تاؤ اور بول کا
کھوٹے سکے ہیں سارے گردش میں
سچا سودا کہاں ملے گا اب
اٹھائے پھرتے ہیں قرآں بس اک ووٹ کی خاطر
سلا دیا ہے اوڑھا کر بس اک غلاف اسے
جب امریکہ نے عراق اور افغانستان کو حقوق انسانی کی حفاظت کے غم میں اپنی طاقت کے نشے میں بے گناہ انسانوں کو اپنے فوجی بوٹوں تلے کچل دیا تھا تو میں نے اپنے غم و اندوہ کو اپنے انگریزی کالموں میں انہی ظالموں کی زبان میں مسلسل ان تک پہنچایا۔ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو ’’دی نیوز ‘‘ انٹرنیشنل کے آرکائیو میں شاید موجود ہوں۔ امریکہ کے ایک انگریزی اخبار میںگوئٹے موبے کی ایک جیل پر ایک طویل فیچر چھپا تھا۔ اس کا ایک چھوٹا سا اقتباس ضرور سنیں۔ لکھا تھا ہیومن رائٹس کی ایک ٹیم نے اس جیل کو وزٹ کیا تو دیکھا کہ جیل میں قیدیوں کو بڑے بڑے پنجروں میں جانوروں کی طرح بند کیا ہوا تھا۔ انکے سامنے خوراک کے طور پر انہی کی گندگی سے بھرے پیالے پڑے تھے۔ ان میں جو کہ زیادہ تر مسلمان قیدی تھے اس لئے ان کے سامنے بیدردی سے ان کی مقدس مذہبی کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی کی جا رہی تھی۔ اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد میں نے جو چیختا دھاڑتا یہ کالم لکھا اس کے عنوان میں ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔
Suprim civilized state cages human beings
اس کالم کے بعد میرے اندر سے بین کرتے کچھ اشعاربھی قلم تلے آ گئے۔
ریوڑ انساں کا بن گیاحیواں
کوئی چیتا کوئی گیدڑ کوئی کُتا ٹھہرا
انسان‘ انساں کو کھا رہا ہے یہاں
حیواں حیران ہوتے جاتے ہیں
پاؤں رکھ کر جبینِ چاند پہ وہ
خود اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے
انسان کے انہی ظالمانہ رویوں اور کم علمی نے مجھے پچھلے کئی سالوں سے سوچوں کی زنجیروں میں باندھ رکھا ہے۔ انسان سے وابستہ تمام معاملات اور کائناتی میکنزم کو سمجھنے کیلئے میں نے قرآن حکیم ، ولیوں ‘ آئمہ کرام اور سچے دانشوروں کو اتنا پڑھا ہے کہ میرے اندر طاقت کی ایک دوا اتر آئی ہے۔ اس طاقت کو اپنے قلم میں بھر کر میں نے ایک کتاب لکھی ہے جسکا نام ہے ’’ شناخت کائنات و ذات‘‘ وہ آخری مراحل میں ہے اور ڈر ہے کہ کہیں میری موت مجھ سے میری یہ نامکمل کتاب نہ چھین لے کیونکہ موت ایک خود مختار طاقت ہے اور جس کا کوئی مقررہ شیڈول ہی نہیں وہ چاہے تو تتلیوں کے ’’پیچھے بھاگتے معصوم وجودوں کو دبوچ لے یا قہقہے لگاتے نوجوانوں کے ہونٹ سی دے یا میرے وجود کا سوئچ آف کر دے۔ میں نے موت کو مخاطب کرکے ایک شعر کہا ہے
زندگی مہ و سال کو قید نہ کر
چھوڑ دے اب حساب اس کا، شمار اس کا