ہندو شہنشاہیت اور مشرق وسطیٰ کی ریاستیں

1946ء میں برطانوی وزیراعظم ا ٹیلی کی دعوت پر قائداعظم اور لیاقت علی اورکانگریس کے چند چوٹی کے لیڈر‘ تبادلہ خیالات کیلئے لندن گئے۔ واپسی پر قائداعظم چند دن کیلئے مصر ٹھہرے اور مصری وزیراعظم کی ضیافت میں مصری نمائندہ سیاستدانوں اور صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے انہیں خبردارکیا۔
’’اگر ہندوستان میں ہندو شہنشاہیت قائم ہوگئی تو ہندوستان میں قائم ہونے والا ہندوستانی سامراج اتنی ہی بڑی لعنت ثابت ہوگا۔ مشرق وسطیٰ ایک مصیبت سے نجات پا کر دوسری مصیبت میں مبتلا ہو جائے گا۔ عرب اور دیگر مسلمان حکومتیں اس وقت حقیقی معنوں میں آزاد ہوں گی۔ جب تک پاکستان قائم نہ ہوگا۔ اگر ہندوستان میں ہندو شہنشاہیت قائم ہوگئی تو اس کا مطلب ہے کہ اسلام ہندوستان سے ناپید ہوگیا۔ میں کہتا ہوں کہ فقط ہندوستان ہی میں ناپید نہیں ہو جائے گا بلکہ دوسرے اسلامی ممالک کا بھی یہی حشر ہوگا‘‘۔
قائداعظم کے اس انتباہ پر عور کیجیئے یہ پاکستان ہی ہے۔ جس نے ہندو شہنشاہیت کو نکیل ڈالی ہوئی ہے کہ اس نے پاکستان کے خوف کی وجہ سے ہندوستان کے ارد گرد کی چھوٹی چھوٹی ریاستیں آزاد ہیں اگر پاکستان نہ بنتا تو یہ مگرمچھ ان کو نگل چکا ہوتا۔ قائداعظم کے مذکورہ بالا خطاب میں ہندوستان میں اسلام کے ناپید ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا تھا۔ اسلام تو اس خطے میں برابر کی طاقت سے قائم دائم ہے لیکن مسلمانوں کا تہائی حصہ ہندوستان میں سخت خطرے میں سے گزر رہا ہے قائداعظم نے بار بار واضح الفاظ میں اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ ہر دو ملکوں میں موجود اقلیتیں ایک دوسرے کی ضمانت کا کام دینگی لیکن نہرو نے زبردست خفیہ عمل سے مغربی ہند میں دوطرفہ برپا کئے گئے فسادات سے مغربی پاکستان سے ہندوؤں کو نکال لیا اور مشرقی پاکستان کو پاکستان سے کاٹ کر اس میں موجود تمام ہندو اقلیت کو محفوظ کر لیا ۔ اس لئے اب ہند میں موجود مسلم اقلیت انتہائی بری حالت میں ہی نہیں ان کا دین اور ان کی مسلم تہذیب ہندو شہنشاہیت کے اندر سخت خطرے میں ہے اور دین اور تہذیب ختم کرنے کا یہ عمل جا ری ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستان کے قیام کے پہلے چار سال کے بعد لیاقت علی کی شہادت کے بعد سے ہم امریکہ کے ریموٹ کنٹرول میں آنے کے بعد اپنے ہی حکمرانوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں کمزور سے کمزور منتشر سے منتشر اور غریب سے غریب ہوتے چلے گئے ہیں۔ اب وقت ہے کہ سول اور ملٹری دانش کو سوچ بچارکرکے موثر منصوبہ بندی سے مشرق وسطیٰ کو اس کی حقیقی راہ پر لاناچاہئیے اور انتہائی خفیہ ڈپلومیسی سے پاکستان ترکی اور ملائیشیا کی قیادتیں مل بیٹھیں۔ ان تینوں کا ہدف مشرق وسطیٰ ہونا چاہئے۔ ۔یہ تینوں مڈل ایسٹ خاص طور پر سعودی عرب اور ایران دونوں میں قربت پیدا کرکے ایک دوسرے کا خوف دور کریں ان کے متنازعہ علاقوں سے وابستہ آویزش کا خاتمہ کرکے انہیں بقائے باہمی کی متحدہ پالیسی کی طرف لائیں۔ کسی بھی کڑے وقت میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت انکی مدد کو نہیں آئیں گے۔ ایران کی مثال انکے سامنے ہے امریکہ نے شاہ ایران کو اس کڑے وقت میں پناہ دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ یہ حقیقت کسی طرح ان پر واضح کی جائے کہ بیان کردہ خود فریبی سے باہر نکل آئیں اس لئے دور حاضرہ میں مرتب ہوتی تاریخ کو بغور دیکھیں جب 1889ء میں فرانس میں انقلاب ابھرا تھا تو صرف شاہی خانوادے کا پورے کا پورا صفایا ہی نہیں ہو گیا تھا بلکہ چوراہوں میں نصب گلوٹین کی دھار تلے تمام ’اشرافیہ‘ کی گردنوں کو لایا جا رہا تھا۔ سارا یورپ لرز گیا تھا کیونکہ اس وقت یورپ میں ویسے ہی بادشاہتیں تھیں جیسے اب مشرقِ وسطیٰ میں ہیں اور عوام کی ایسی ہی بری حالت تھی جیسے ان مسلم ممالک میں ہے۔ اس وقت جرمنی کے حکمران بسمارک نے اس تاریخی دانش کا اظہار 1866 میں کیا تھا۔ ’’اگر انقلاب ناگزیر ہے تو بہتر ہے کہ ہم اس کے معمار بنیں نہ کہ شکار‘‘ ۔ اس تاریخ کی طرف ان بادشاہوں کا دھیان موڑتے ہوئے انہیں اس ڈھب کی طرف لایا جائے۔
-1 کہ وہ اپنا مستقبل ان تین اسلام دشمنوں امریکہ ،اسرائیل اور بھارت کے حوالے ہی نہ کر دیں بلکہ چین کے ساتھ بھی برابر کے تعلقات قائم کریں تاکہ عوام یہ سمجھیں کہ وہ مغرب کے غلام نہیں ۔حقیقت یہ کہ اسی میں ان کی اصل بقا بھی ہے۔ دانش کا تقاضا ہے کہ سارے انڈے صرف ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈال دئیے جائیں۔ -2 اگر بادشاہت کا دوام چاہتے ہیں تو برطانیہ کی تاریخ بغور پڑھیں کہ کس طرح بتدریج اقتدار میں عوام کو شامل کیا جاتا ہے اور بالآخر ’’آئینی بادشاہت‘‘ کے پروقار مزے حاصل کئے جاتے ہیں اور عوامی بغاوت کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا جاتا ہے۔ 
-3 یہ بھی کسی نہ کسی طرح ان پررواضح کر دیا جائے کہ مغرب کی تقلید میں ساری دولت اپنی ذات تک ہی محدود رکھنے کا احمقانہ عمل جاری رکھنے کی بجائے اس کا رُخ عوام کی طرف ایسی تدبیر سے موڑا جائے تاکہ نہ کوئی محروم رہے نہ کسی انقلاب کا خناس اسکے ذہن میں پیدا ہو۔ ایسی بہترین بادشاہت کی مثال ناروے کے سیاسی نظام میں موجود ہے ان مسلم ریاستوں میں جہاںآبادیاں کم ہیں یورپ کی طرح ذرائع آمدنی وافر ہیں ایسا عمل ہو سکتا ہے۔-4 پٹرول نے کبھی نہ کبھی ختم ہونا ہے ملک میں صنعت اور دیگر کارآمد شعبوں میں پوری آبادی کو مصروف کر دیا جائے کہ عوام کی بافراغت زندگی کا چلن چلتا رہے اور ملک اس وقت کے آنے سے پہلے خودکفیل ہو چکا ہو۔ 
اگر ایسا اسلامی اتحاد اور ایسی فطری فضا پیدا ہو جائے تو نہ صرف اسلام اپنا قدرتی مقام اور سیاسی وقار حاصل کر لے گا بلکہ عالم اسلام بھارت پر ایسا موثر دبائو ڈالنے کے قابل ہو جائے گا کہ ہندو شہنشاہیت مسلمانوں کا استحصال کرنے سے باز آ جائے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن