معزز قارئین! آج نہ جانے مجھے عربی زبان کے لفظ ”محبوب“ ( پیارا، دوست، معشوق) کا پنجابی متبادل لفظ ”ماہی / ماہِیا“ کیوں یاد آ رہا ہے؟ پنجابی میں ”ماہی/ ماہِیا“ کو ”ڈھول / ڈھولا“ بھی کہتے ہیں اور جب ڈھول پولیس یا فوج کا کوئی سپاہی ہو تو ا±سے پنجاب کی الہڑ مٹیاریں ”ڈھول سپاہیا“ کہہ کر مخاطب یا یاد کِیا کرتی ہیں۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دَوران پاک فوج کے ہر سپاہی کے لئے مرحومہ ملکہ ترنم نور جہاں کا یہ نغمہ بہت مقبول ہ±وا تھا جِس کا م±کھڑا (مطلع) یہ تھاکہ ....
میریا ڈھول سپاہِیا، تَینوں ربّ دِیاں رکھّاں!
تَیتھے، واری جاوَن، میرے جئیہاں لَکھّاں!
پنجاب کی کسی اور الہڑ مٹیار نے اپنے ”ڈھول سپاہِی“ کو یاد کرتے ہ±وئے کہا تھا کہ ....
ڈھول سپاہِیا وَے، کِتھّے گئیوں، دِل لا کے؟
میریا ماہِیا ، وَے، کِتھّے گئیوں، دِل لا کے؟
نہ جانے کیوں لوگ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں؟ اور اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں؟ بقول جناب فیض احمد فیض ....
د±نیا نے تیری یاد سے، بیگانہ کر دیا!
تجھ سے بھی، دلفریب ہیں، غم ر±وزگار کے!
صدر جنرل ضیاءا±لحق کے دَور میں ایک پولیس کانسٹیبل نے ”پیر سپاہی“ کی حیثیت سے بہت شہرت پائی تھی۔ چنانچہ وہ عوام کا مسیحا بن گیا تھا۔ ا±س کی شخصیت رومن ڈکٹیٹر "Julius Caesar" کا یہ قول زندہ کررہی تھی کہ"He Came, He Saw and He Conquered" (یعنی ”وہ آیا۔ ا±س نے دیکھا اور ا±س نے فتح کر لیا)۔ پِیر سپاہی کی زیارت کے لئے لوگ د±ور د±ور سے آتے اور فیض پاتے تھے۔ ا±س کا فیض ”فیضِ عام“ بن گیا تھا۔ س±ورج کی کِرنوں کی طرح۔ س±ورج جو تمام د±نیا کو روشنی اور حرارت بخشتا ہے۔ پِیر سپاہی کا دل بہت وسیع تھا۔ کھ±لے سمندر کی طرح۔ ایک وسیع و عریض آسمان کی طرح۔ وہ اپنے عقیدت مندوں پر محبت اور شفقت کی بارش برساتا، لوگ خالی ہاتھ آتے اور ج±ھولیاں بھر کر واپس جاتے!۔
”پِیر سپاہی“ کے بارے بہت سی روایات تھیں ،یہ بھی کہ ”وہ محکمہ پولیس میں، سپاہی یعنی کانسٹیبل ہے لیکن رزقِ حلال کھاتا ہے۔ اسی باعث ا±س کی زبان میں تاثِیر ہے۔“ کسی نے یہ کہا کہ ”پِیر سپاہی نے اپنے اعلیٰ افسر کے ح±کم پر ایک بے گناہ شخص کو ”پولیس مقابلے میں“ جان سے مارنے سے انکار کر دیا۔ دراصل وہ بے گناہ کوئی”پہنچا ہوا بزرگ“ تھا جس نے سپاہی کو ”ر±وحانی قوتیں“ عطا کر دِی تھیں۔ جسے جنرل صاحب نے محض اس وجہ سے مجمع لگانے پر مقرر کیا ہے کہ لوگ سیاسی جلسے اور جلوسوں کی طرف توجہ نہ دیں“۔ پیر سپاہی جو کچھ تھا کسی کو معلوم نہیں تھا؟ لیکن لوگ ا±س کی طرف پروانہ وار دوڑتے تھے۔ ’پِیر سپاہی “ مختلف بیماریوں کا علاج کرتا اور ضرورت مندوں کے بگڑے کاموں کو سنوارتا تھا۔ پورے ملک میں ا±س کے عقیدت مند پھیلے ہ±وئے تھے، جن میں، عام آدمی، تاجر، وکیل، ڈاکٹر، سرکاری افسر، چھوٹے ملازم، فلم ساز، فلم ایکٹر، سمگلر، سٹّے باز، کن ٹ±ٹے اور معزز، غرض کہ ہر طبقے کے لوگ تھے۔ عورتیں، مرد، بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے۔
”پِیر سپاہی“ پانی، دودھ، شہد، تیل اور گھی پر بھی دم کرتا تھا۔ جب وہ ریلوے سٹیشن یا ائیر پورٹ پر برآمد ہوتا تو عقیدت مندوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ا±س کے استقبال کے لئے موجود ہوتا۔ ا±س کے ہاتھوں میں ڈھکن ک±ھلی، پانی، دودھ، شہد، تیل اور گھی کی بوتلیں ہوتیں۔ ریلوے سٹیشنوں اور ائیر پورٹس پر ،لاﺅڈ سپیکر کا انتظام ہوتا ”پِیر سپاہی“ کی برآمدگی کے بعد ا±ن کا کوئی م±رید خاص اعلان کرتا کہ ”خواتین و حضرات! اپنی اپنی بوتلوں کے ڈھکّن کھول دیں!“ پھر عقیدت مندوں کی بوتلوں کے ڈھکّن کھ±ل جاتے۔ ”پِیر سپاہی“ کچھ پڑھ کر لاﺅڈ سپیکر پر ”چھ±و“ کرتا اور عقیدت مند فرطِ عقیدت سے م±نہ سے مختلف قسم کی آوازیں نکالتے۔ بعض اوقات بھگدڑ مچ جاتی۔ ٹریفک میں خلل پڑ جاتا، پولیس کو لاٹھی چارج بھی کرنا پڑتا۔ ہر کوئی ”پِیر سپاہی“ کی ”چھ±و“ کا طلب گار ہوتا تھا۔کلائمیکس پر پہنچ کر ”پِیر سپاہی“ غائب ہوگیا۔ کسی نے کہا کہ”جنرل ضیاء الحق ا±سے ملک سے باہر لے گئے تھے اور وہیں چھوڑ آئے“۔ کوئی بولا کہ ”وہ مخصوص مذہبی جماعتوں کی درخواست پر افغان مجاہدین کی جنگِ آزادی کی قیادت کر تے ہ±وئے کابل پر” اسلامی جھنڈا“ لہرا کر ہی پاکستان واپس آئے گا۔“
کل رات ”کینیڈین شیخ ا±لاسلام“ علاّمہ طاہر ا±لقادری کے لڑکپن کے جھنگوی دوست ”بابا ٹلّ“ نے میرے خواب میں آ کر مجھ سے کہا کہ ”اِس وقت پاکستان کے بھوکے، ننگے اور بے گھر عوام کے مسائل کا حل صرف ”پِیر سپاہی“ کے ہی پاس ہے !“ اِس پر مَیں نے بابا ٹلّ سے کہا کہ ”مَیں نے تو ”پیر سپاہی“ کو کبھی نہیں دیکھا۔ ا±نہیں تو صدرِ پاکستان عارف ا±لرحمن علوی صاحب اور وزیراعظم میاں شہباز شریف ہی تلاش کرسکتے ہیں۔ آپ ا±ن سے رابطہ کریں! معزز قارئین! پھر میری آنکھ ک±ھل گئی تو مجھے یاد آیا کہ ”جناب ذوالفقار علی بھٹو، ا±ن کی د±ختر وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور داماد، صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری اپنے دَور میں عوام سے ”روٹی ، کپڑا اور مکان“ کا وعدہ کِیا کرتے تھے تو وزیراعظم ہاﺅس اور ایوان صدر کے باہر بھوکے ، ننگے اور مفلوک ا±لحال عوام یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ....
روٹی،کپڑا بھی دے، مکان بھی دے !
اور مجھے، جان کی امان بھی دے !
معزز قارئین ! ا±ن کے بعد دوسرے اور موجودہ حکمرانوں کے بارے میں بھی مَیں یہی سوچ رہا ہوں کہ ”کم آمدن کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ ا±ن کے پڑھے لِکھے بیٹے بے روزگار ہیں۔ وہ شادی کے قابل اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دے سکتے۔ ”پیر سپاہی“ پاکستان کے 60 فی صد مفلوک ا±لحال عوام کی امیدوں کا مرکز نہیں بن سکتا؟ لیکن ”پِیر سپاہی“ کو سوچنا تو ہوگا کہ ”غریبوں کے پاس تو ڈھکن کھلی، پینے کے صاف پانی کی بوتلیں بھی نہیں ہیں؟ اگرچہ مَیں "Late" ہوگیا ہ±وں لیکن مَیں تو اپنے دوست شاعر (مرحوم) اعزاز احمد آذر کے شعر ہی کو اپنے کالم کی زینت بنا سکتا ہ±وں کہ....
وہ جِس کے بعد گویا، زندگی نوحہ سرائی ہے!
ا±سے کہنا کہ جولائی تو پھر سے لوٹ آئی ہے!