آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ملک بھر میں آئندہ ماہ جولائی سے گیس پچاس فیصد مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اضافہ سوئی سدرن اور سوئی ناردرن دونوں کیلئے کیا جارہا ہے۔ اوگرا کے فیصلے کے مطابق سوئی سدرن کیلئے گیس کی قیمت میں اوسطاً 45 فیصد اور سوئی ناردرن کیلئے 50 فیصد اضافہ ہوگا۔ اس اضافے کے ساتھ سوئی ناردرن کی اوسط قیمت 1238.68 روپے اور سوئی سدرن کی اوسط قیمت 1350 روپے ہو جائیگی۔ اوگرا کے ذرائع کے مطابق گیس کے نئے نرخوں کا اطلاق یکم جولائی 2023ءسے ہوگا۔ قیمتوں میں اضافے کا حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کرے گی جسے 45 دن کے اندر اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر حکومت کی جانب سے مقررہ میعاد کے اندر فیصلہ نہ ہو پایا تو 45 دن بعد گیس کے نئے نرخوں کا ازخود اطلاق ہو جائیگا جبکہ قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کی صورت میں حکومت کو سبسڈی دینا پڑے گی۔
اس وقت جبکہ اتحادی جماعتوں کی حکومت موجودہ منتخب اسمبلی کے آخری بجٹ کی تیاریوں کے اختتامی مراحل میں ہے اور اس بجٹ کی بنیاد پر ہی اتحادی حکومتی قیادتوں نے اگلے انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانا ہے‘ یہ بجٹ اسمبلی میں پیش ہونے سے پہلے گیس کے نرخوں میں پچاس فیصد اضافے سے متعلق اوگرا کا فیصلہ عوام پر تازیانے برسانے اور آئی ایم ای کا قرض پروگرام بحال نہ ہونے کے باعث مشکلات میں گھری حکومت کو مزید پریشان کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے تین روز قبل فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے نرخوں میں ڈیڑھ روپے فی یونٹ اضافہ کرکے مہنگائی کے ستائے عوام میں مزید اضطراب پیدا کیا گیا جبکہ اب گیس کے نرخوں میں اضافے سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلکنے کی نوبت لا سکتا ہے۔
عوام تو یہ توقعات باندھے بیٹھے تھے کہ حکومت اپنے آخری بجٹ کو اپنے انتخابی منشور کے طور پر پیش کریگی اور اسے عوام دوست بجٹ بنا کر غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے گرداب میں پھنسے عوام کو انکے گوناں گوں مسائل پر مطمئن کرنے کی کوشش کریگی۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف‘ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا اور حکومتی مالیاتی ٹیموں کی جانب سے مجوزہ بجٹ کے حوالے سے دل خوش کن بیانات بھی دیئے جاتے رہے‘ بالخصوص تنخواہ دار طبقات اور پنشنر حضرات کی تنخواہوں اور پینشن میں معقول اضافے کی خوشخبریوں کا سلسلہ اس وقت بھی جاری ہے جبکہ وزیراعظم مجوزہ بجٹ میں کسانوں‘ کاشتکاروں کو خصوصی مراعات اور کھاد‘ بیجوں میں سبسڈی دینے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔
اسکے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کا پاکستان کیلئے قرض پروگرام بحال ہوئے بغیر ہی ختم ہونے کے ٹھوس عندیہ کے باعث عوام میں یہ امید بھی پیدا ہو گئی کہ آئی ایم ایف کی ہر شرط قبول کرنے کے باعث آئے روز اٹھنے والے مہنگائی کے سونامی بھی تھم جائیں گے اور آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ بندھا کوئی نیا ٹیکس بھی مرے کو مارے شاہ مدار عوام کی زندگیوں میں کوئی نیا خلجان پیدا نہیں کر سکے گا مگر بادی النظر میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت نے بجٹ سے پہلے ہی عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسانے کی ٹھان لی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بجٹ میں عوام کو راندہ درگاہ بنانے کا مزید کتنا اہتمام ہو رہا ہے۔
گزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے ڈالر کی صرف اوپن مارکیٹ سے خریداری کی عائد کردہ آئی ایم ایف کی پابندی ختم کرنے سے ڈالر اور دوسری غیرملکی کرنسیوں کی قدر میں جس تیز رفتاری کے ساتھ کمی ہوئی‘ یہ فضا بھی عوام کو حوصلہ افزاءنظر آرہی تھی کیونکہ ڈالر کے نرخوں میں کمی سے روزمرہ استعمال کی تمام اشیاءکے نرخوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی مگر عوام کا یہ اطمینان محض چند لمحات تک ہی برقرار رہ پایا اور اگلے روز ڈالر نے پھر جستیں بھرنا شروع کر دیں۔ اب عوام کی امیدوں پر اوس ڈالنے کی رہی سہی کسر گیس کے نرخوں میں پچاس فیصد تک اضافے کے فیصلہ کے ذریعے نکال دی گئی ہے۔
گزشتہ روز وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کی جو ہفتہ وار رپورٹ جاری کی گئی اس میں بھی عوام کیلئے مہنگائی میں کمی کی کوئی خوشخبری موجود نہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے مہنگائی کی شرح میں 0.3 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ مہنگائی میں اضافے کی سالانہ شرح 42.6 فیصد ریکارڈ ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے روزمرہ استعمال کی اشیاءمیں آلو‘ پیاز‘ چکن‘ ٹماٹر‘ مسور‘ ماش کی دال‘ چینی‘ نمک سمیت 19 اشیاءکے نرخوں میں اضافہ اور 14 اشیاءکے نرخوں میں کمی ہوئی ہے۔ نرخوں میں اضافہ زیادہ تر روزمرہ استعمال کی اشیاءمیں ہوا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کم وسائل والا عام آدمی اور بے روزگار طبقات مہنگائی کے ہاتھوں کس طرح زندہ درگور ہو رہے ہیں۔ انکی پہنچ سے تو جان بچانے والی معمول کی ادویات بھی باہر نکل چکی ہیں اور انکے پاس ایڑیاں رگڑتے ہوئے مرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اب بجلی‘ گیس کی سہولت بھی‘ جو پہلے ہی کمیاب ہے‘ انکی پہنچ سے باہر نکل جائیگی تو وہ آنیوالے انتخابات میں موجودہ حکمران جماعتوں کی قیادتوں کیلئے کیونکر رطب اللسان ہونگے۔ حکمران اتحادی جماعتیں اپنے آخری بجٹ کو بھی عوام کیلئے عذاب بنا کر کیا اپنے پاﺅں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس صورتحال میں اتحادی حکمرانوں کیلئے آنیوالا بجٹ ہی آخری سہارا ہے جسے عوام کیلئے ریلیف کا بجٹ بنا کر ہی وہ عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔