اصغر علی شاد
امر اجالا
shad_asghar@yahoo.com
راقم کی تحریر کردہ کتاب ’را کے دیس میں اسیری کے نو سال (ابو جواد کے قلمی نام) سے 32سال قبل شائع ہوئی۔اس کا ایک باب قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔۔”1965ءکی جنگ سے بھارت کو حسب خواہش نتائج حاصل نہ ہوئے تو وہاں کی حکومت نے پاکستان کی نفسیات پر ریسرچ کے لئے خصوصی ادارے قائم کے مختلف ٹیموں نے مسلمان خصوصاً پاکستانی قوم کے مختلف زاویوں سے تجزیے کیے۔ ان کی تمام خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی حاصل کی گئی بلکہ اس مقصد کے لئے ”درگا پر شاد دھر“ (ڈی پی دھر)کی قیادت میں کئی افراد دو سال سے زیادہ عرصہ پین کی لائبریریاں کھنگالتے رہے اور ان اسباب و عوامل کے مطالعے میں مصروف رہے جن کی بدولت اندلس میں صدیوں سے قائم اسلامی حکومت کا خاتمہ ہی نہ ہوا بلکہ اس خطے سے مسلمان قوم کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ یہ سارا عمل حکومت ہند کی نگرانی میں انتہائی سائنٹیفک انداز سے ہنگامی بنیادوں پر عمل میں آیا۔ اس تحقیق کی بنیاد پر ہی بھارت نے مرحوم مشرقی پاکستان میں اپنے آپریشن کا آغاز کیا جس کے انجام سے ہم سب پوری طرح آگاہ ہیں“۔اسی تناظر میں کتاب کے کچھ دیگر سطور پیش خدمت ہے۔”سینئر بھارتی پولیس افسر کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں تم کو سو سال پہلے آزادی مل گئی تھی جس کی وجہ سے بحیثیت قوم تم کو آزادی کی قدر انیت کا شعور نہیں ہے جبکہ ہم ہندووں کو کم و بیش ایک ہزار سال بعد آزادی ملی خواہ برائے نام ہی سہی۔.1857ئ تک مسلمان قوم دہلی کے تخت و تاج کی وارث تھی اور صرف نوے سال غلام رہنے کے بعد تم لوگوں کو نفسیاتی طور پر آزادی کی قیمت معلوم ہی نہیں۔ میرا دوسرا نقطہ یہ ہے کہ کانگرس کا ہوم ورک بہت زیادہ تھا اور اس کے ذہن میں پہلے سے تمام تر امکانات موجود تھے اس لئے کانگرس نے ایک پارٹی کے طور پر تمام شعبوں میں سبقت حاصل کر لی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان صرف دو شخصیتوں کی مساعی کا نتیجہ ہے۔ اقبال کی برکت اور جناح کی حرکت نے یہ معجزانہ کام سر انجام دیا بلکہ اس میں بھی اقبال زیادہ حاوی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے تمہاری قوم کو ایک نظر یہ بھی دیا اور ایک قائد بھی تلاش کر کے دیا اور قائد کو سے تحمل سے قیادت کے لئے اصرار کر کے لندن سے بلوایا۔ اس کے ساتھ قائد اعظم کی طلسماتی اور بے لوٹ قیادت نے اس صدی کے سب سے بڑے معجزے کے ظہور پذیر ہونے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ لیکن تیسر ا منفی پوائنٹ تمہارے حصے میں قدرت کی طرف سے آیا کہ قائد اعظم تھوڑے ہی عرصے بعد وفات پاگئے جس کے بعد تمہارے ہاں قیادت کا بحران پیدا ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں جواہر لعل نہرو کی زندگی نے وفا کی اور وہ 1964 ءتک سیاسی اداروں میں کسی قدر استحکام پیدا کر چکے تھے۔ چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں اداروں کی بجائے شخصیات کے استحکام کی کوششیں ہوتی رہیں اور تمہارے یہاں صرف ایک ادارہ فوج مستحکم بنیادوں پر قائم ہے اور تم لوگوں کی یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ یہی ایک ادارہ تمہارے وجود کی ضمانت ہے لیکن تم لوگ اس کا بھی ادراک نہیں رکھتے اور وقتا فوقتا اس ادارے کو بھی بدنام کرنے کا مجھے ہی اپنی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اس لئے سیاسی خودکشی کے راستے پر دھیرے دھیرے گامزن ہو۔ اس کے مقابلے میں ہمارے یہاں شخصیات کی بجائے ادارے محترم ہیں۔چتر ویدی اس طرح لیکچر دے رہا تھا جیسے کسی کلاس روم میں بیٹھا ہو۔ میں خاموشی سے بیٹھا اس کا بھاشن سن رہا تھا۔ پانی پینے کے بعد وہ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولا۔۔ یہ پانچویں اور آخری وجہ یہ ہے کہ تمہارے یہاں خود احتسابی کا رواج ہی نہیں۔ گو شخصیت پرستی ہندو دھرم کا حصہ ہے لیکن تمہارے ہاں یہ ملی شکل میں موجود ہے۔ اعتدال پسندی تمہارے مزاج کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ تمہارے ہاں ہر شخص کے صرف دو روپ ہوتے ہیں۔ یا تو وہ فرشتہ ہوتا ہے یا شیطان اسی حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے بانی پی ٹی آئی نے پاکستان اور اس کے عوام کے خلاف زہر افشانی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جسے بجا طور پر ڈیجیٹل دہشتگردی کا نام دیا جا رہا ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں پاکستانی عوام اور تمام ریاستی ادارے اس صورتحال کے تدراک کے لئے موثر اقدامات کرئیں گے۔