کوئی ہے جوسوچے سمجھے ؟   

Jun 04, 2024

رقیہ غزل

    حسب موقع  ازقلم

 رقیہ غزل 
یہ شہر 7 ویں صدی قبل مسیح کے دوران آباد ہوا اس کا نام پومپئی تھا مختلف ادوار میں مختلف قوموں کے زیر نگیں رہنے کے بعد رومن ایمپائر کے تسلط میں آیا تو ترقی و خوشحالی کی ایسی منزلیں طے کیں کہ بڑے بڑے تجارتی شہروں میں شمار ہونے لگا ۔پانی کے تالاب ، بیکریاں ،کشادہ سڑکیں ،واٹر سپلائی کی سکیمیں ،لائبریریاں ،کمیونٹی سنٹر ،اسپتال ، صنعت و حرفت کے کارخانے ،دو منزلہ مکانات اورمکانوں کے پیچھے لان اور شاہی تزئین و آرائش کے لاجواب نمونے، پھولوں سے سجی شاہرائیں اور گزرگاہیں ،پانی کے حوض میں آبشاروں جیسے فوارے اور دل افروز نظارے الغرض یہ شہر جنت کا نقشہ پیش کرتا تھا ، زیبرا کراسنگ کا آغاز بھی یہیں سے ہوا اور یہیں سے اجتماعی غسل خانوں ،حمام اور مساج سینٹر ز کے تصور نے جنم لیا اور یہیں سے اس شہر کی بر بادی شروع ہوئی کہ رفتہ رفتہ یہی اجتماعی غسل خانے اور مساج سینٹرز بے حیائی کے مراکز بننے لگے جس میں مرداورعورتیں اجتماعی غسل کرتے جہاں رشتوں کا بھی کوئی لحاظ نہ رکھا جاتا بلکہ جنسی ہوس پرستی میں یہ لوگ حیوانیت کی ہر حد پار چکے تھے لیکن چونکہ دولت کی فراوانی تھی ،کوئی روک ٹوک اور پابندی نہیں تھی کیونکہ اس تالاب میں سبھی ننگے تھے اس لیے بڑھتی ہوئی بے حیائی اور عام ہوتی بد کاری محسوس نہیں ہوتی تھی بائیں وجہ چند دہائیوں کے بعد وہ شہر جو کبھی تجارتی ، زرعی اور صنعتی شہرت کا حامل تھا وہ آزاد معاشرے (FREE SOCIETY) کے نام سے ایسا مشہور ہوا کہ سر عام شراب پینا ، جسموں سے لذت حاصل کرنا اور رقص و سرود کی محفلیں سجاناسبھی کا مشغلہ بن گیاکیونکہ عوام اور اشرافیہ تو ایک طرف حکمران ،افسران اور دیگر عہدے داران صرف سرپرستی ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ازخود قحبہ خانوں کو چلاتے اور جسم فروشی کا مکروہ دھندہ کرتے تھے ہم جنس پرستی مردوزن دونوں میں عام تھی جس پر فخر کیا جاتا تھا کہ جو اس بے حیائی میں زیادہ مبتلا ہوتا اور بیباکی سے اقرار کرتا وہی زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔
اس پر بس نہیں بلکہ شہوت کو ابھارنے والے مردو زن اور جانوروں کے ساتھ بد فعلی کے مناظر پیش کرتے مجسمے اور فحش تصاویر جو کہ کھدائی کے دوران ملیں تھیں ایسی بیہودہ کہ ایک شریف آدمی اپنے پاس رکھنا تو درکنار دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ہے وہ دیواروں پر لگائی جاتی تھیں تاکہ دوسروں کو برائی کی ترغیب ملے اور شر م و حیا کا تصور ختم ہو سکے ۔ ان کے جنسی رحجان اور شہوت پرستی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ دیواروں پر لکھی ہوئی عبارات کا جب ترجمہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس دور کے شاعروں اور لکھاریوں کی تحریریں اور شاعری بھی انتہائی شرمناک تھی مگر کہا جاتا ہے کہ لکھاریوں اور شاعروں کو ایسی تحریریں لکھنے اور غیر اخلاقی اشعار کہنے پر انعامات سے نوازا جاتا الغرض فحش گوئی اور بد کاری اس شہر کا عام مزاج بن چکا تھا جس پر انھیں فخر تھا ۔
قارئین کرام ! آپ کے ذہن میں حضرت لوط ؑ کی قوم کا سچا واقعہ ضرور آگیا ہوگا جنہوں نے ہم جنس پرستی کو اختیار کر لیا تو اس قوم پر اللہ نے پتھروں کی بارش برسا کر کے انھیں نیست و نا بود کر دیا تھا مگرپومپئی کے لوگ تو حضرت لوط کی قوم کو بھی پیچھے چھوڑ چکے تھے کیونکہ ان کے ہاں جانوروں سے بد فعلی بھی عام تھی اللہ تعالی ظالم کی رسی دراز ضرور کرتا ہے مگر جب پکڑ کرتا ہے تو بہت سخت ہوتی ہے ایک آتش فشاں پہاڑ یعنی ماﺅنٹ وسویس کے دہانے پر واقع ہونے کے باوجود یہ شہر ہر چیز سے بے نیاز غلط کاریوں میں مصروف تھا کہ غضب الہی کی پکڑ میں آگیا اور آتش فشاں پھٹ پڑا اور لاوا بہہ نکلا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا تین دن تک یہ آتش فشاں آگ اور لاوا اگلتا رہا اور پومپئی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق کھدائی کے دوران جوچیزیں دریافت ہوئیں وہ آئندہ نسلوں کے لیے باعث عبرت ہیں کیونکہ کھدائی کے دوران ملنے والی لاشیں اسی حالت میں بے گورو کفن ملی ہیں جس حالت میں وہ اپنے آخری وقت میں تھے اکثر ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جیسے روز مرہ زندگی کے لمحات کو ساکت کر دیا گیا ہو مزید تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ان پر اس وقت عذاب الہی نازل ہوا جب وہ اپنی سیاہ کاریوں اور رنگ رلیوں میں مصروف تھے کہتے ہیں کہ اس شہر کے باسیوں کا شمار امیر ترین افراد میں ہوتا تھا مگر بد قسمتی کے ساتھ انھوں نے پروردگار کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ غلط استعمال کیا اور دنیاوی لذتوں میں آخرت کو بھلا ڈالا اور خدائی پکڑ نے آلیا اور رہتی دنیا کے لیے باعث عبرت بنا دیا ۔
وائے افسوس! آج وطن عزیز میں یہی سب ہو رہا ہے اور ذی شعور خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کونسی ایسی برائی ہے جس کی وجہ سے قومیں تباہ و برباد ہوگئیں وہ ہمارے ہاں عام نہیں اورنوشتہ دیوار ٹھہرا کہ جس معاشرے میں سب چلتا ہے وہ معاشرہ پھر نہیں چلتا ہے ۔۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلی قوموں کے حالات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ان غلطیوں کو نہ دہرایا جاتا مگر !وہی عزت کا معیار ہے اور وہی ریاست کا وقارہے، وہی نوازے جانے کے پیمانے ہیں اور وہی بے خوفی کے مناظر ہیں مزید بے حیائی کا بول بالا ہے کہ ٹک ٹاکرز اور کرپٹ افراد رول ماڈل بنا کر نئی نسلوں کے سامنے پیش کر دیے گئے ہیں جبکہ پہلے ہی مغربی ممالک ہمارے تھیٹر کی گندگی پر سوال اٹھا چکے ہیں کہ عورت کو دکھا کر کماتے ہو اور باتیں اسلام کی کرتے ہو! ہمیں اس پر سوچنے کی ضرورت تھی مگرہم نے الٹا ایسے افراد کو رول ماڈل بنا کر نئی نسل کے سامنے باوقار طریقے سے پیش کر دیا ہے۔۔ در حقیقت ہم پر اقبال کا یہ شعر فٹ آ چکا ہے کہ ”گنوا دی ہم نے اسلاف سے جومیراث پائی تھی ۔۔ثریا نے آسماںسے زمیں پر ہم کو دے مارا“آج دنیا ہمارے رہن سہن اور فکرو عمل پر انگلیاں اٹھا رہی ہے ہم کسی کو اچھائی کی تلقین کرتے ہیں تو معاشرتی برائیوں اور اخلاقی زوال کے قصے سنا کر ہمیں چپ کروا دیا جاتا ہے۔ہمارے بعض لکھاری بیہودہ گوئی کو طنز و مزاح بنا کر فحش گوئی کو فروغ دے رہے ہیں ۔عورت کو شعروں میں ہی نہیں تحریروں میں بھی پورٹریٹ کیا جارہا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر ہر قسم کی غیر اخلاقی ویڈیوز بنانابھی عام ہو چکا ہے جس کا خمیازہ ہم یہ بھگت رہے ہیں کہ سگے رشتوں اور ملنے ملانے والوں سے معصوم بچے محفوظ نہیں رہے بلکہ ایسے واقعات بڑھنے کی خبریں ٹی وی پر چل رہی ہیں پھر بھی ہماری روش نہیں بدلتی جیسے آگاہی جہالت بن گئی ہو ۔عجیب بیماریاں سننے کو ملتی ہیں اورہر روزا موات کی خبریں مل رہی ہیں جس میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے مگر کسی کو پرواہ نہیں۔ پتہ نہیں ہم رب سے جڑنے کے لیے اپنے ٹوٹنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں حالانکہ تقوی اور نیکی ہی آخرت کے لیے بہترین زادِ راہ ہے اور اسی میں نجات ہے۔ مان لیجیے کہ یہ توبہ کا وقت ہے تکبر اور ڈھٹائی کا نہیں اور یہ کبھی نہیں سنا گیاکہ انسان کو عاجزی اور تقوی لے ڈوبا بلکہ ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں انسان تکبر اور عیش پرستی کیوجہ سے مارا گیا لہذا وقت کی پکار ہے کہ احکام الٰہی کو سمجھیں، سنبھل جائیں اور آخرت کی فکر کریں ” تو کوئی ہے جو سوچے سمجھے ؟“
 

مزیدخبریں