تحریر : ڈاکٹر زرقانسیم غالب
شب۔ جمعہ کو کچھ تسبیحات میں اضافہ ہوتا ہے عصر اور مغرب کے درمیان تسبیح پڑھ رہی تھی کہ اچانک نظر اس خوبصورت کتاب پر پڑی جو چند روز قبل علامہ عبدالستار عاصم کے ہاتھ اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلی محترم الطاف حسن قریشی نے بھیجوائی جو بندی کے لیے بڑا اعزاز ہے راقمہ ہر وہ کتاب جس پر مصنف دستخط کر کے دیتے ہیں اپنے ڈرائینگ روم مں پڑی کتابوں کی الماری کی زینت بناتی ہے باقی کتب میری لائبریری میں چلی جاتی ہیں اور ہمیشہ کتاب کو پڑھ کر اس پر اپنی آرا پیش کرنے کی جسارت کرتی ہوں جس کتاب پر لکھنا مقصود ہوتا ہے اسے سب سے اوپر رکھ دیتی ہوں تاکہ نگاہ پڑتی رہے اور زہن میں رہے آجکل یاداشتیں بھی تو ہوا ہو چکی ہیں کچھ بیماریوں سے کچھ روز بروز کے بدلتے حالات سے ٹہل ٹہل کے پڑھنے کا عمل جاری تھا یکدم نظر کتاب پر پڑی اسی لمحے محترم الطاف حسن قریشی کے ساتھ کال پر ہوئی بات یاد آگءکہ آپ نے پڑھ کر اپنی آرا دینی ہے اور وعدہ بھی کیا جھٹ سے تسبیح مکمل کی اور کتاب چومتے ہوئے ایسے اٹھائی جیسے قرآن پاک کو پکڑا جاتا ہے اور کیوں نہ یہ عمل ہوتا کتاب پر خانہ کعبہ کی تصویر تھی "قافلے دل کے چلے" عنوان پڑھتے ہوئے کتاب بسم اللہ پڑھکر چومتے ہوئے کھولی. یہ خوبصورت کتاب جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور ان کی دعا کے نتیجے میں مبعوث ہونے والے خاتم النبیین حضرت م±حَمَّدﷺ کے نام ہے
پڑھنا شروع کیا تو پڑھتی چلی گئی۔شام کی دعاوں کا خیال اس وقت آیا جب پہلا باب ختم اور صفحہ نمبر 40 پر نظر پڑی کتاب پھر چومی اور ٹیبل پر رکھتے ہوئے اٹھی کچھ کھا لوں اور تسبیحات مکمل کروں۔اب میں جبل رحمت سے گزر رہی تھی اسقدر عمدہ تحریر الفاظ کے قیمتی موتیوں سے پروئی تحریر صفحہ نمبر 59 پر خطبہ پڑھتے ہی کہ جیسے کھونے لگی یہ اس لیے بھی کہ اس سفر نامے نے راقمہ کو اپنا حج کا سفر یاد دلا دیا تھا میرا پہلا حج میرے شوہر کے ساتھ 2003 میں ہوا حج۔ اکبر کی سعادت نصیب ہوئی وہ منظر نظر کے سامنے کسی فلم کی ریل کی طرح گھومنے لگے اس وقت میری عمر 21 برس تھی میرے شوہر پڑھے لکھے میچور انسان تھے مجھے اپنا ضد سے اونٹنی پر بیٹھنا یاد آنے لگا کچھ دیر کے لیے ماضی میں کہیں کھونے لگی اس مقام کی ہماری تصویر بھی ہے "قافلے دل کے چلے" نے مجھے جھنجور کے رکھ دیا جن لمحات کو وقت کی تلخیاں دبا چکی تھی سب ایک ایک کر کے باہر آنے لگے جو جو قریشی صاحب کے ساتھ ہوا ملتا جلتا ہم پر بھی گزرا تھا ایسا محسوس ہونے لگا ہم "قافلے دل کے چلے" میں ساتھ ساتھ ہیں محترم الطاف حسن قریشی مارچ 1967 میں اس سفر پر روانہ ہوئے ہم دسمبر 2003 میںعالی مرتبت الطاف حسن قریشی کو سعودی حکومت کی جانب سے اعزاز ملا میرے شوہر کا نام یو ای ٹی کی حج کمیٹی میں آیا نسیم یو ای ٹی میں پڑھے اور وہی جاب کرتے تھے راقمہ نے گھر پر ہی کمیٹی اکٹھی کی اور دونوں نے بزریعہ حبیب بنک فارم فل کیے منظوری بھی فٹ سے ہوگءجب بلاوے اوپر والے کی جانب سے ہوں تو راستے لاکھ دشواریوں کے باوجود خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں
اس وقت چوتھا باب پڑھ رہی ہوں منی میں خادم۔ الحرمین سے پہلی ملاقات طواف سے واپس آ کر نیند کی وادیوں میں کھو جانے کے بعد صبح کی سنہری دھوپ میں جاگنے تک پہنچی ہوں تھوڑا وقفہ پھر درکار وجہ گھر کے کام کاج آفس سے ٹیم کا فون کام کے سلسلہ میں دانتوں کا شید درد سب ساتھ ساتھ چل ہے اور میں پھر قریشی صاحب کی طرح کھوئی کھوئی ہوں بظاہر میرا وجود گھر بچوں کے ساتھ ہے لیکن ماضی میں کیے جانے والا شوہر کے ساتھ حج کا سفر ہوا کے تیز جھونکوں کی طرح گزر رہا ہے کبھی ہوا ٹھینڈی پرکیف تو کبھی جدائی کی تلخ یاد کی طرح انگاروں بھری کیونکہ حج سے آنے کے بعد ہی تو نسیم دنیائے فانی سے رخصت ہوئے اور میں تین معصوم بچوں کے ساتھ تنہا طویل سفر۔ حیات کے لیے کھڑی تھی اب پڑھتے پڑھتے اس صفحہ پر پہنچی جس کا شدت سے انتظار تھا یہ وہی ورق تھا شاہ فیصل سے محترم الطاف حسن قریشی کی ملاقات کا یہ اعزاز آپ ہی کو ملنا تھا کیسے پروردگار نے آپ کو اپنے گھر کی سر زمین کے لیے خادم الحرمین سے بلاوا بھیجا یہ سلسلے روحانیت کے ہیں اللہ بندے کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے وہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے آپ کی تڑپ سے واقف ہے کیسے رب نے اپنے بندے کو عزت بخشی شاہ فیصل کا آپ کے ساتھ کچھ دیر کھڑے رہنا اور باقی شرکاءکی نسبت زیادہ وقت دینا آپ کی شخصیت کی کشش کو ظاہر کرتا ہے
چھٹا باب روضہ رسول کے روحانی تجربے نے دل پر عجیب کیفیت طاری کر دی شوق۔ جنوں ہچکولے کھانے لگا ہے تڑپ میں انتہا کی تڑپ بیدار ہوئی ہے کہ اس کسک نے روح کو تڑپا دیا ہے دل کسی بچے کی طرح پھر مچلنے لگا ہے کہ جھوم کر پہنچ جاوں اور رقص۔ جنوں سے گزر جاوں یہ شوق قافلے دل کے چلے نے بیدار کیے کءایسے قصے زیست سے گزرے ان کی کہانی پھر کبھی ابھی قافلے دل کے چلے نے ہلچل مچا دی ہے
قافلے دل کے چلے نے عزت۔ مآب قریشی صاحب کی معصوم دل کی مثبت سوچوں کے دریچے کسی تند و تاریک رات کی سیاہی سے چھلکنے والی صبح۔ نسیم کی طرح سرور بخش رہے ہیں آپ کے قلم میں کہیں کسی بشر کا نشر ظاہر نہ ہوا آپ نے انسانیت کی عمدہ مثال قائم رکھی ہم خوش قسمت ہیں آپ کے عہد میں ناصرف سانس لے رہے ہیں ہمکلام ہونے کے ساتھ ملاقات سے فیض یاب ہوتے ہیں اس وقت صفحہ نمبر 141 پر ہوں سعودی عرب کے مکالموں کا گزر بھی سہانا ہے 142 صفحہ اور ڈائری لکھنے کی بات پھر ایکبار ششد رہ گءقریشی صاحب کی یہ عادت بھی ہے راقمہ بھی یہی کرتی ہے نجانے کتنی ڈائریاں بھر رکھی ہیں حجام کی دوکان پر ڈاکٹر سے ملاقات اور 65 کی جنگ کے قصے زہن و دل کو تقویت دیتے رہے
آٹھواں باب عرب میں پہلا پاکستانی سکول
یہ چند سطور پڑھنے میں بڑا لطف آیا یہ مزہ آپ بھی لیجیے
"ٹیکسیاں بے شمار اور مسافر بے حساب تھے میرے حصے میں ایک شوخ سی ٹیکسی آئی جس کی نگاہ کسی ایک پہ ٹکتی ہی نہ تھی جلدی سے اس کی طرف لپکا کے اس کی نظروں میں کوئی اور نہ سما جائے جام لبوں کو چھونے ہی والا تھا کہ گردش جام تہ و بالا ہو گئی ایک بڑی سی کار میرے قدموں میں آ کے رکی اور ایک ادھیڑ عمر شخص نے جلدی سے باہر نکلتے ہوئے الطاف حسن قریشی! کی اواز لگائی"
قافلے دل کے چلے سچ میں ایسی خوبصورت کتاب ہے کہ جس کے لفظوں کی کھنک اور مصروں کی چھنک نثر کی اپنی شاعرانہ ادائیں آپ کو مدہوش کرتی ہے یہ عمدہ کاری محترم الطاف حسن قریشی کا ہی خاصا ہے
الخبر میں پاکستانی سکول سچے جزبوں کی روشنی کا بلند مینار ہے جو اب ڈگڑی کالج بن چکا ہے
نواں باب کویت: خوبصورت مساجد کا شہر۔ نگاراںایک بات تو طے تھی قریشی صاحب کی صاف گوئی اور معصومانہ سوچ نے ان کے رستے صاف رکھے جبکہ راہ کی دشواریاں کب کسی کو چھوڑتی ہیں البتہ نیتیں کام آجاتی ہیں جو کہ ثابت ہوا کویت کی بارش میں خوب نہاتے ہوئے نت نءشخصیات حصہ میں آتی رہی
دسواں باب اردن کے فلسطینی کیمپ میں روح تڑپا دینے والا منظر صفحہ نمبر 163 قریشی صاحب کی تحریر میں پاکستان کے بارے میں اتنے اچھے کلمات پڑھ پڑھ کر خاص کر فلسطینی مہاجر خاتون کا والہانہ انداز مجھے تو خود پر فخر کا گمان ہونے لگا اللہ تیرا شکر ہے میں بھی پاکستانی ہوں اور اپنے ملک سے بے انتہا محبت کرتی ہوں
قریشی صاحب کی بدولت میں نے بھی کئی ایسی شخصیات کو جانا جو ناصرف معاشرے میں دنیا میں ایک بلند مقام حاصل کر چکے ہیں
خدا نہ چاہے تو ایسے راستے نہیں بنتے جیسے قریشی صاحب کے لیے اللہ تعالی نے اسطوار کیے اور ایسی ایسی شخصیات سے ان کو ملاتے رہے جو دنیا میں نامہ نامی ہیں بے شک یہ عطائے ربی ہے انسان چاہ کر بھی خود کچھ نہیں کر سکتا جب تک رب کی رضا نہ ہو وہ بہت خوش قسمت ہوتا ہے جسے اللہ کا قرب حاصل ہو اور اس کے نیک بندوں کا ساتھ وہ اللہ کا خاص بندہ ہے جیسے محترم الطاف حسن قریشی ۔
گیارہواں باب صفحہ نمبر 169 دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے خوشگوار اثرات جہاں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیاں خوشگوار دوستی کے تاثرات وہی منشیات کے حوالے سے کرب ناک داستانیں کب کیسے جنم لیتی رہی اور کیسے کیسے رنگ بدل کر یہ سیاہ کاریاں ہمارے لیے بدنامی کا باعث بنتی گءکسی ناسور سے کم نہیں منشیات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات ہونے چاہیے جس نے ہماری نسلوں کی فصلوں کو اجاڑ دیا ہے
بارہواں باب: تیس برس بعد حج کا صبر آزما تجربہ جو 1997 میں ہوا صفحہ نمبر 179
جاپان میں پاکستانی بینک قائم ہے اس بینک میں کچھ جاپانی مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں جی جان سے محنت کر رہے ہیں وہاں پر مگر کبھی کسی نے وہاں اکاونٹ نہیں کھولا جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ غیر ملکی بینک میں اکاونٹ کھلوانے سے ہمارے ملک کو فائدہ نہیں ہوگا جو قومیں اپنا بھرم رکھنا جانتی ہیں کامیاب بھی وہی ہوتی ہیں دکھ تو اسی بات کا ہے ہمارے ملکی حکمران سے عوام تک نجانے کتنے اثاثے باہر بنا چکے ہیں اگر یہی پیسہ ملک میں آجائے تو ملک ناصرف قرض سے نجات پالے گا کءضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگا مگر یہ سوچے کون؟؟
ایک تولہ سونے کی سکیم کی تجویز بھی خوب تھی ۔عزیزی زین ویزے میں دو ماہ کی توسیع اور حج۔ مبارک کی خوشخبری بھی کسی معجزے سے کم نہ تھی یہ بلاوے یہ حاضریاں رب کی جانب سے تھی
سردار رحمت اللہ کا کردار پاکستان کے لیے ناقابل۔ فراموش لائق۔ قدر ہے اللہ اس کا انہیں اجر۔ عظیم عطا کرے اللہ قریشی صاحب کو بھی جن کی بدولت ہم یہ سب جان سکے اور غائبانہ میلاپ ہوا آمین
تیرھواں باب صفحہ نمبر 204 وادی منی میں محشر کی گھڑی کا آنکھوں دیکھا حال
آگ میں بچی کو بحفاضت اس کے والدین تک پہنچانا اس نفسانفسی کے عالم میں سوڈانی عورت کا آپ کو پانی پلانا یہ سب کڑیاں تھی جو آپس میں مل رہی تھی
کتاب کے ایک ایک پنے پر جیسے جیسے کوئی مشکل درپش آتی رہی وہ اللہ کی جانب سے قریشی صاحب سے لیے جانے والے کام کا حصہ بنتی رہی یہ راز وہی جانتا ہے جو کاروان۔ جہان کا مالک ہے اللہ اپنے ہی بندوں کو منتخب کرتا ہے ایسے بھلائی کے کاموں کے لیے آپ نے یہ سارے سفر کوئی آسائشوں کے ساتھ طے نہیں کیے بڑی دشواریاں پیش آئی مگر صبر و شکر کے کلمات نے آپ کو ہر میدان میں سرخرو کیا انسان تپ کر ہی کندن بنتا ہے
کتاب میں ملک کی تین نامور شخصیات محترم مجیب الرحمن شامی، عطاالحق قاسمی اور اوریا مقبول جان صاحب کی تحاریر بھی موجود تھی لیکن میں نے انہیں نہیں پڑھا یہ میری اپنی سوچ ہے کہ جب آپ کسی کی تحریر پڑھ لیتے ہو تو آپ کی تحریر میں وہ بات نہیں رہتی ہاں کالم لکھنے کے بعد ضرور پڑھوں گی
چودھواں باب صفحہ نمبر 226 نظام حج میں بنیادی تبدیلوں کی تجاویز
نظام۔ حج کی جن تبدیلیوں پر عزت۔ مآب قریشی صاحب نے روشنی ڈالی ہے اس سے متفق ہوں جب تک ہماری حکومت اس پر غور نہیں کرے گی حاجیوں کے مسائل بڑھتے رہیں گے حج فرض ہے اسے تفریح گاہ مت بنایا جائے
آپ کے پوتے ایقان حسن قریشی نے قافلے دل کے چلے مرتب کر کے بتا دیا کہ دادا کے نقش۔ قدم پر گامزن ہے اللہ کامیاب کرے آمین
قریشی صاحب پر اللہ کی خاص عنایات برسی ہیں شاہ فیصل کا حج پر بلانا سے لے کر بیشمار معزز شخصیات کا ملنا ان کے ساتھ وقت کا گزرنا انٹرویو لینا سے لے کر اور یہ سب آپ کی بدولت ہمیں بھی اعجاز ملا ایسا محسوس ہوا ہم آپ ہی کے ساتھ سفر۔ مبارک کے راہی ہیں آپ کی جداگانہ خوبصورت تحریر نے نثر کے کءدریچے کھولے اشعاری تحریر نے آپ کو سمجھنے اور آپ میں چھپے معصوم اندر کے انسان کو ظاہر کیا آپ کی شخصیت جسقدر شفاف ہے آپ کے قلم نے سب عیاں کیا ہے قلمکار کے قلم سے مثبت اور منفی دو ہی طرح کے لفظ قلمبند ہوتے انسان جو اندر سے ہوگا وہ لاکھ پردوں سے بھی نظر آجائے گا کءجگہ پر منفی بات کو بھی آپ نے اپنے مثبت فقروں کے لبادے سے ڈھانپ لیا یہ بڑے ظرف کے لوگ ہوتے ہیں جو قلم کی تلوار جیسی تیزی کو بھی خوبصورت میٹھے پانی کے چشمے کی دھار میں بدل دیں وگرنہ لوگ قلم میں بھی تلوار لیے پھرتے ہیں یہ کتاب قاری کے لیے بہترین تحفہ ہے بلکہ میں تو کہونگی ایسی کتب کو نصاب میں پڑھایا جائے تاکہ نسل۔ نو ایسی مثبت سوچ کے ساتھ ماحول کو جانچنے کا مادہ بھی پروان چڑھے
مختصر تحریر میں کتاب کی خوبی بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اس پر گاہے گاہے بات ہوتی رہے گی