مشروبات پر ٹیکس میں 50 فیصد اضافہ ہو گا۔
زندگی کے اس کڑوے کسیلے ماحول میں لے دے کر صرف یہی مشروبات ہی باقی رہ گئے تھے جن کو پی کر کچھ دیر کے لیے منہ میں مٹھاس گھل جاتی تھی۔ اب حکومت نے یہ مٹھاس بھی چھیننے کی تیاری کر لی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بجٹ میں مشروبات پر 50 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں بوتلیں ، جوس اور شربت بھی شامل ہوں گے۔ تو یوں سمجھ لیں اب ہم مہمانوں کی خاطر تواضع سادہ پانی سے ہی کر سکیں گے کیونکہ لیموں سونے کے بھاﺅ بک رہا ہے اور چینی بھی اوپر جا رہی ہے۔ ورنہ لیموں پانی سے ہی کام چلا لیتے۔ ستو اور شکر کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ورنہ یہ بہترین دیسی سواگت کا انتظام تھا۔ اب یہ بھی گیا۔ جدید ماڈرن لوگ شکر کولا پیتے نہیں۔ اب تو وہ بھی بوتل لینے سے پہلے سوچیں گے۔ یوں مہمانوں کی تواضع اب مشکل ہو جائے گی۔ اس طرح چلیں ایک فائدہ یہ ضرور ہو گا کہ ہم جو کروڑوں روپے کے غیر ملکی مشروبات منگواتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں اس میں کمی آئے گی اور ملکی زرمبادلہ بچے گا۔ یوں عوام کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔ ویسے بھی زیادہ مٹھاس صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اب شوگر ملز والے جی بھر کر چینی جمع کریں گودام بھریں جب مٹھاس ہی مہنگی ہو گی تو چینی کا استعمال بھی کم ہو جائے گا مگر کیا غیر ملکی برانڈ کی مشروبات کمپنیاں یہ فیصلہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں گی۔ کیونکہ اسی مٹھاس کی وجہ سے ان کی تجوریوں میں ڈالرز جمع ہوتے ہیں جو ہماری جیبوں سے نکلتے ہیں۔
ارکان اسمبلی کے ترقیاتی صوابدیدی فنڈزپر پابندی۔
یہ خبر تو ارکان اسمبلی کی سانسیں بند کرنے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ ان کی تو اسی صوابدیدی اختیار اور فنڈز کی وجہ سے ٹور بنی ہوتی ہے اور یہ اس کا بے محابہ استعمال کر کے اپنی جے جے کراتے پھرتے ہیں۔ مگر اب چونکہ اخراجات میں آئی ایم ایف کے کہنے پر کٹوتی ہو رہی ہے تو پھر اب ارکان اسمبلی کا صوابدیدی فنڈ بھی اسکی زد میں آ گیا ہے۔ آخر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ سو اب وہ بھی آئی ایم ایف کی چھری تلے آ گئے ہیں۔ کئی تو سوچ رہے ہوں گے کہ اب کیا فائدہ اس اسمبلی کی ممبری کا۔ وہ جس ترقیاتی فنڈز کی بدولت اپنے حلقوں میں تھوڑا بہت کام کراتے تھے۔ اب وہ بھی نہیں رہا تو کیا کریں گے۔ بہرحال یہ بات اتنی خطرناک بھی نہیں کیوں کہ انہیں اس کے علاوہ بھی جو مراعات حاصل ہیں وہ بھی ان کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ اگر وہ یہ فنڈز ہی ترقیاتی کاموں پر خرچ کریں تو ان کی جے جے کے لیے کافی ہوں گے اور ان کے حلقے کی قسمت بھی بدل سکتی ہے۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔نلکا لگانا،گلی بنانا نالیا ں بنانا ہی ان کے نزدیک اہم ہےحالانکہ وہ قومی سطح پر عوام کی ملک کی خدمت کے لئے راہنمائی کے لئے منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے ہیں۔مکرشاید ہی کسی کو اس کا علم ہو۔
اب اسے ساتھ ساتھ اگر ان ارکان اسمبلی کو جو مراعات کی شکل میں یا رشوت کے طور پر سرکاری رقم دی جاتی ہے‘ مفت بجلی‘ پانی ‘ گیس‘ ٹیلی فون‘پٹرول‘ ٹی اے ڈی اے کی مراعات حاصل ہیں وہ بھی ختم کرکے کافی بچت کی جا سکتی ہے۔ انکے دفتری اخراجات دیکھیں ‘ شاہی اخراجات کی طرح ہیں۔ صرف ان کے ہی نہیں‘ اعلیٰ افسران کے اللے تللوں پر بھی بلاشبہ اربوں خرچ ہوتے ہیں۔ وہ بھی ختم کریں تو مزہ ہی آجائے۔ یہی رقم عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کیلئے رکھی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ انہیں تعلیم‘ صحت‘ خوراک کی سہولتیں‘ ارزاں نرخوں پر فراہم کرکے حکومت دعائیں لے اور آئندہ ووٹ بھی ملیں گے۔ ویسے بھی ارب پتی ارکان اسمبلی پر خرچ کرنا فضول ہے۔ انکی جیب پہلے ہی گرم ہوتی ہے۔
ٹی 20 ورلڈ کپ کا میلہ امریکہ میں سج گیا، دنیا بھر کے شائقین پرجوش۔
ابھی تک امریکہ والے کرکٹ کے وبال سے محفوظ تھے باقی تمام کھیلوں میں امریکی جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اور خوب نام کماتے ہیں مگر حیرت انگیز طور پر یا یورپی کھیل ہونے کی وجہ سے اس کھیل سے نفرت کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود کرکٹ عالمی سطح پر فٹبال کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ کھیل ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں کھیلی جاتی ہے۔ اب امریکہ نے بھی کرکٹ کے میدان میں قدم رکھ دیا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ آغاز میں ہی اس کی دھاک بیٹھنے لگی ہے۔ اس نے ابتدائی میچوں میں کامیابیاں سمیٹیں۔ پھر امریکہ میں جب ٹی 20 ورلڈ کپ کے انعقاد کا اعلان ہوا تو تب ہی کرکٹ کے ماہرین کا ماتھا ٹھنکا تھا اور کرکٹ کے پرانے شکاری پریشان نظر آنے لگے تھے کہ اب امریکہ اس میدان میں بھی قبضہ جما لے گا۔ اب کیا کیا جائے میدان سیاست ہو یا کھیل۔ تجارت ہو یا مداخلت۔ امریکہ جہاں قدم رکھتا ہے وہاں جماتا چلا جاتا ہے۔ اب اس یورپی کھیل کی خیر نہیں۔ اب گزشتہ دنوں پہلی بار امریکہ میں کرکٹ کا عالمی میلہ سجا ہے۔ ابتدائی میچز میں امریکہ نے کینیڈا کو 7 وکٹوں سے ہرا دیا۔ دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز نے پاپائے نیوگنی کو 5 وکٹوں سے ہرا دیا۔ اس طرح امریکہ نے فاتحانہ انداز میں انٹری ڈال کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
پنجاب میں نو پلاسٹک مہم۔ شاپر استعمال کرنے والی دکانوں کو بھاری جرمانے ہوں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ عرصہ ہوا پنجاب میں کئی بار پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی لگائی جا چکی ہے اور خلاف ورزی کرنے پر جرمانے اور سزا کا ڈراوا بھی دیا گیا مگر کیا مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ آج بھی ہر شہر ہر دیہات میں جگہ جگہ شاپروں کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں۔ گندگی پھیلانے میں سب سے بڑا کردار انہی شاپنگ بیگز کا ہی ہے۔ کیونکہ یہ گھلتے نہیں۔ نالے اور نالیاں ان کی بھرمار سے اٹی ہوتی ہیں اور گندا پانی سڑکوں پر بہتا ہے۔ ذرا سی ہوا چلے یہ شاپر بھوت بن کر ہر جگہ اڑتے پھرتے ہیں۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے میں ان شاپروں کے استعمال پر پابندی اور بھاری جرمانے کا جو اعلان کیا ہے۔ خدا کرے اس پر سختی سے عمل درآمد ہو اور یہ ہوا میں اڑتے بھوت اور گندگی کا ڈھیر بنانے والے شاپرز کی تیاری اور استعمال واقعی بند ہو۔ انڈیا میں یہ شاپر کا استعمال عرصہ ہوا ختم ہو چکا ہے۔ وہاں کے لوگ کپڑے یا گھل جانے والے تھیلے استعمال کرتے ہیں۔ یوں وہاں یہ ماحول دشمن شاپر نہیں ملتے۔ اگر ہمارے ہاں پنجاب سے یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو بڑی بات ہو گی۔ مگر کیا یہ شاپر مافیا ایسا ہونے دے گا۔ مگر اب سختی سے اس پابندی پر عمل کرا کے ہی ہم ماحولیاتی آلودگی کی اس سب سے بڑی وجہ سے نجات پا سکیں گے جس کے باعث شہر و دیہات گندگی کا ڈھیر بنے نظر آتے ہیں۔