ہماری قومی ترجیحات کیا ہیں

ارنسٹ ہیمنگ وے نوبل انعام یافتہ امریکی مصنف تھا۔ اس کے لافانی ناول ”اولڈ مین اینڈ دی سی“ نے کروڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا اور درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ فلمیں بھی بنیں۔ ابتدائی دور میں اسے ہر جدوجہد کرنیوالے کی طرح بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی تحریروں کا پلندہ بڑے بڑے پبلشروں کے پاس لے جاتا وہ اسے ہفتے دو ہفتے کا وقت دیتے۔ مسودہ دیکھتے اور رسمی تعریف کے بعد شائع کرنے سے انکار کر دیتے۔ ہیمنگ وے کے ایک دوست نے اسے مشورہ دیا کہ ایک انتہائی مشہور مصنف اور انسان دوست جیمز جوائس سے ملے جو ہر ہفتے دوستوں کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھتا ہے۔ ہیمنگ وے ملنے گیا اور کینسر میں مبتلا جوائس کو اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔ جیمز جوائس نے اس کے مسودے رکھ لئے اور ٹھیک ایک ہفتے بعد اسی ریسٹورنٹ میں ملنے کا کہا۔ اگلی ملاقات میں جیمز جوائس نے اس کے مسودوں کی تعریف کی مگر کہا کہ لگتا ہے آپ بہت سوچ کر کہانی بنا کر لکھتے ہیں اور اس کی بجائے حقیقت کے قریب لکھیں۔ جو آپ پر گزری ہے اسے فکشن بناکر لکھیں۔ لکھنے کیلئے حقیقت کے قریب اپنی ترجیحات طے کر لیں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہیمنگ وے نے ایسا ہی کیا اور اپنے دوسری جنگ عظیم کے دوران اٹلی میں ایمبولینس چلانے کے تجربات پر مبنی ناول لکھا اور پھر لکھتا ہی رہا اور کامیاب ہوتا چلا گیا۔ 
بنیادی سی بات ہے انسانوں کو انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ قوموں کو بھی آگے بڑھنے کیلئے مثبت ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف صبح سے شام کر لینے کا نام ہی زندگی نہیں بلکہ آگے بڑھ کر سراغ زندگی کو پانا پڑتا ہے پھر کہیں جاکر چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا ہے، اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔ چین ہی کی مثال لیں جب تک قومی ترجیحات طے نہ ہو سکیں کیا جاپان کیا برطانیہ اور فرانس، سب نے من مانی کی۔ گوروں نے افیون کی سپلائی کیلئے اپنے لوگوں کو لائسنس تک جاری کئے رکھے اور منع کرنے پر جنگ پر اتر آئے۔ ماو کے انقلاب کے بعد ترجیحات طے ہوئیں تو جیسے ہر کام کو ”لیب فارورڈ“ لگ گئی۔ گراں خواب چینی سنبھل گئے ہمالیہ سے زبردست چشمے ابلے جو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کے رواں دواں دریاوں میں بدل گئے۔ ماو کے بعد لیڈر شپ ڈینگ زیاوپنگ نے سنبھالی، اوپن ڈور پالیسی کا ڈول ڈال کر چین کو ترقی کے نہ رکنے والے سفر پر روانہ کر دیا۔ پھر شی جن پنگ آ گئے اور انہوں نے بی آر آئی( بریج اینڈ روڈ انیشیٹو) کے ذریعے ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا ہے جس نے ہر ایک کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیا ہے اور ان کی سوچ کا جادو سرسے بھی اوپر چڑھ کر بول رہا ہے۔ 
قیام پاکستان سے لیکر اب تک کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہماری قومی ترجیحات کیا ہیں؟ ہم نے کیسے آگے بڑھنا ہے۔ قوم کو کس طرح تعلیم یافتہ بنانا ہے، عالمی مسابقت کی دوڑ کیسے جیتنی ہے، لوگوں کو سہولتیں دینے کیلئے کیا کرنا ہے۔ قرض کیوں کر ادا کرنا ہے۔ ادارے کیسے چلانے ہیں۔ معاشی، زرعی، سیاسی، سماجی مستحکم قومی پالیسیاں کیا ہونی چاہئیں۔ ٹیکس کیسے ادا کیا جانا ہے اور قوم کا پیسہ ایک ارب ڈالر کی گندم عیاشی اور 85 ارب روپے کی کک بیک کی بجائے سوچ سمجھ کر کیسے خرچ کرنا ہے۔ جیسے امریکی امداد دیتے ہوئے ٹیکس ڈالر کی رٹ لگاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے لوگوں کو انکے ٹیکس کے پیسوں کا حساب دینا ہوتا ہے۔
اس سب کیلئے ضروری ہے کہ حکمران سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی ترقی اور نئی سوچ کیلئے تھنک ٹینک بنائیں جہاں ماہرین دن رات کام کریں اور اہم تجاویز کیساتھ سامنے آئیں جن پر عمل کرکے ملک کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اس انتہائی تیز رفتار اور تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے والے دور میں عقل کل نامی کوئی چیز ہے نہ اس کی کوئی حیثیت۔ اس لئے سب کو اکیلے خوار پھرنے کی بجائے حقیقتوں کو تسلیم کرکے پائیدار پالیسیاں مشاورت سے بنانا ہونگی۔ سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھنا بہت اچھی بات لیکن فی الوقت اگر کوئی کسی سے مذاکرات نہیں چاہتا تو نہ سہی کم از کم ماہرین کے تھنک ٹینک تو بنائیں۔ اور یہ پسند ناپسند پر مبنی نہیں ہونے چاہئیں بلکہ سیاسی وابستگیوں سے مبرا حقیقی معنوں میں ماہرین پر مشتمل ہونے چاہئیں جو کڑوی بات کریں یا کڑوہ مشورہ دیں تو وہ بھی خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہئے۔ کیونکہ دو ہی کام ہو سکتے ہیں، یا تو اپنی ذات اور اپنی تعلق داریوں کو آگے بڑھا کر ملک کی پروا چھوڑ دی جائے یا پھر اپنی اور اپنوں کی ذات کی نفی کرکے ملک کو مقدم رکھ لیا جائے۔ اپنے ملک میں عالی وقار بن کر بیٹھنے اور دوسروں سے مانگ کر مَے پینے سے بہتر ہے۔ خواہ مخواہ کی انا کے بت توڑ ڈالے جائیں۔ 
فی زمانہ 76 سالہ ملکی واقعات کے تسلسل نے اس جنگل کی یاد دلا دی جہاں ایسے جمہوریت آ گئی جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آ جاتی ہے۔ لیکن جنگل میں بہار آنے کی بجائے مزید خزائیں نازل ہو گئیں۔ بندر اکثریت میں تھے اور انہوں نے جمہوریت کا فائدہ اٹھا کر ایسا کچھ کیا کہ ان کا بڑا بندر ہی حکمران بن بیٹھا۔ دن بڑے جمہوری جمہوری گزرنے لگے کہ اچانک ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ، جو عام طور پر بندروں کی استطاعت سے باہر ہوا کرتا ہے درپیش ہو گیا۔ بہرحال معاملہ ”بادشاہ سلامت“ کے سامنے پیش ہوا تو وہ لگے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانے۔ باقی جانوروں نے کچھ دیر انتظار کیا لیکن جب یہ انتظار طویل ہوتا گیا تو ان میں سے کچھ ”معززین“ اور اشرافیہ کے نمائندے بول اٹھے کہ ”حضور سب انتظار کر رہے ہیں“ اس پر عالی مرتبت بڑے بندر بولے کہ دیکھ تو رہے ہیں میں کوشش کر رہا ہوں اور کیا کروں؟۔
جی جناب....! وطن عزیز کی پوری تاریخ مسائل کو سنجیدہ انداز میں حل کرنے کی بجائے ”بندر کی چھلانگوں “ سے بھری پڑی ہے۔ درخت ہیں تو ختم ہونے میں ہی نہیں آتے۔ ایک کے بعد ایک۔ دوسرا، پھر پہلا اور کہانی پھر سے شروع....پھر بندر کی کوششوں میں ہو سکتا ہے خلوص شامل لیکن ہمارے ہاں تو سب پالیسیاں ڈنگ ٹپاو اور مٹی پاو ہیں۔ اور اگر کوئی مخلص کوشش ہے تو وہ ذاتی مفادات، ذاتی ترقی اور ذاتی طاقت کے حصول کی ہے۔ 
ایک ہی کہانی بار بار دہرانے والوں کو بخوبی معلوم ہونا چاہئے کہ اس بار یہ اس سلسلے کی آخری قسط ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ آگے بڑھنا ہے اور حقیقت پر مبنی دوسری کہانی شروع کرنی ہے یا پھر ”تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں “ والی صورتحال بنانی ہے؟۔ ملکی حالات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور فیصلہ کن مراحل میں فیصلہ کن اقدامات بھی بہتری کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔ 
ملک واقعی نازک ترین صورتحال سے گزر رہا ہے خدارا....! اس موقع پر ”کوا حرام ہے یا حلال“ اور سوئی کی نوک پر 70 ہزار فرشتے بیٹھ سکتے ہیں یا نہیں؟ جیسی اذکار رفتہ بحثوں سے چھٹکارا پائیں۔ جن لوگوں کے پاس کوئی پروگرام نہیں ان کی جذباتیت کو نظر انداز کریں اور حقیقت پسندانہ طرزعمل سے آخری قسط کو اگلی اور ترقی والی کہانی کا پہلا باب بنا دیں ورنہ فی الواقع
”تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں“

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...