نوائے وقت میں شائع شدہ اپنے کالموں کی سال 2010ءکی فائل کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ میری نظر ایک کالم کے عنوان "پیارے پاکستان کی پیاری باتیں" پر ٹِک گئی۔ اس کالم کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو محسوس ہوا کہ کالم کے الفاظ میرے پیارے پاکستان کے بعینہ آج کے حالات کے ساتھ چل رہے ہیں۔ جناب خاطر جمع رکھیئے۔ یہ کالم آج سے 14 سال بعد پڑھا جائے گا تو بھی ایسا ہی لگے گا جیسے آج کے ماحول کا ہی تذکرہ ہو رہا ہے۔ سرِ دست 14 اگست 2010ءکو شائع ہونے والا میرا کالم ملاحظہ فرمائیے۔ اس کا جائزہ کسی اگلی نشست میں لیں گے کہ اس ارضِ وطن میں شروع دن سے آج تک ایسے "سدا بہار" حالات برقرار رکھنے میں کس کا ہاتھ اور کس کی سوچ اب تک کارفرما ہے۔ ویسے تو ”کِس دا دوش اے، کِس دا نئیں اے۔ ایھ گَلّاں ہ±ن کرن دیاں نئیں“۔ بس کالم ملاحظہ فرمائیے۔
”آج پیارے پاکستان کی تخلیق کا 63واں سال ہے۔ اس پیارے پاکستان کے جنم دن سے اب تک بے شمار ایسے سوالات ذہنوں میں جنم لے چکے ہیں جو جواب کی تسلی سے ابھی تک آشنا نہیں ہو پائے۔ ایک آفاقی سوال جو ہر وقت اور ہر لمحہ اٹھتا رہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس ملک کا کیا بنے گا۔ شروع دن سے اب تک اس سوال کا یہی جواب ملتا ہے کہ اللہ خیر کریگا۔ اگر یہ سوال آج 63 سال بعد بھی ذہنوں میں کلبلا رہا ہے تو اس سے سادہ سی مراد تو یہی ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی اس پیارے پاکستان پر اب تک خیر کی نظر نہیں پڑی۔
میرے پاس تو ہمیشہ اس سوال کا گھڑاگھڑایا جواب ہوتا ہے کہ جس طرح شروع دن سے اب تک یہ وطن عزیز ہر طرح کی مصیبتوں اور آلام کا سامنا کرتے ہوئے اور اپنی دھرتی پر ہمہ وقت ہونیوالی لوٹ مار‘ بداعمالیوں اور قدم قدم پر پیدا ہونیوالی الجھنوں کے باوجود قائم دائم ہے تو انشاءاللہ یہ ہمیشہ کیلئے اسی طرح قائم دائم رہے گا۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پیارے پاکستان پر ذات باری تعالیٰ کی نگاہ کرم نہیں ہے۔ اگر یہ دھرتی بدخصلتوں کی جانب سے جھنجھوڑے، چچوڑے جانے کے باوجود اپنے اوپر آباد خلق خدا کو رزق دے رہی ہے تو اس دھرتی پر ذات باری تعالیٰ کی اس سے بڑی اور کیا نگاہ کرم ہو سکتی ہے۔ اس لئے میں تو اپنے پیارے پاکستان کی بقاءکے معاملہ میں ہمیشہ پرامید رہتا ہوں۔ اسکے ازلی جانی دشمن بھارت نے اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے اب تک کیا کیا حربے اختیار نہیں کئے۔ اس پر کہاں کہاں سے اور کتنے وار نہیں کئے‘ اسے اپنی بقاءکی فکر لاحق کرنے کیلئے کون کون سا ڈراوا نہیں دیا‘ اس کے کلچر کو اپنے مادرپدر آزاد کلچر میں خلط ملط کرنے کی کونسی تدبیر نہیں اپنائی اور اسے تقسیم ہند کی سزا دینے کیئے کہاں کہاں پر ٹکٹکی نہیں لگائی۔ ہمارا یہ ظالم اور سنگدل دشمن اس وطن عزیز کا ایک بازو تو کاٹنے میں کامیاب ہو گیا مگر اس کا وجود اسی طرح صفحہ ہستی کی زینت بنا ہوا ہے اس لئے میرا کامل یقین ہے کہ صفحہ ہستی پر جلی حروف میں کندہ پیارے پاکستان کا نام بھی ہمہ وقت کندہ رہے گا۔ تصور اقبال کے جلو میں قائداعظم نے مسلمانان ہند کی آزادی کا سفر کوئی آسانی کے ساتھ تو طے نہیں کیا تھا۔ الفت کی ٹھوکریں کھاتے‘ مقامات آہ و فغاں سے نکلتے‘ اپنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرتے اور متعصب ہندو‘ سکھوں سے لٹتے کٹتے اگر آزاد و خودمختار پاکستان کی شکل میں منزل حاصل کی گئی تو یہ منزل بیٹھے بٹھائے تو حاصل نہیں ہو گئی: بقول ظہور حسین ظہور؛
رلدے گھلدے‘ دھکے کھاندے
ماں‘ بھیناں دی عزت گنواندے
گردناں بچیاں دی کٹواندے
تھکدے‘ ٹٹدے‘ ٹردے جاندے
بچ نکلن لئی بھیس وٹاندے
تد ایہہ جا کے موقع بنیا
پاکستان کوئی سوکھا بنیا؟
یہ مملکت خداداد ہے تو اسکی حفاظت کی ذمہ داری بھی اسی باری تعالیٰ کی ہے ورنہ ہم نے اس کو توڑنے‘ نچوڑنے‘ گنوانے میں اب تک کوئی کسر تو نہیں چھوڑی۔اسکی تشکیل اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کے تصور پر ممکن ہوئی تھی۔ ہم نے اسلام کو بدنام اور جمہوریت کا مردہ خراب کیا اور معاشرے کے فلاحی تصور کو مملکتی راہداریوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ اگر ہر اچھائی کی ضد اختیار کرکے اور ہر بھلائی کو الٹا کر بھی اس مملکت خداداد کو بھٹکایا نہیں جا سکا‘ فوجی اور سول آمریتوں کے تجربات سے گزر کر بھی جمہوریت کی تڑپ قائم ہے اور اسے امریکی کالونی کا درجہ دلوا کر بھی اسکی آزادی ہمیں دل و جان سے عزیز ہے تو اس دیس کی کشتی چاہے کتنے بھی ہچکولے کھاتی رہے اور ساحل سے دور لے جائی جاتی رہے‘ اسے منزل سے بھٹکانے والے سازشیوں کو بالآخر منہ کی کھانا پڑیگی۔ بے شک اس دھرتی کے وسائل اس پر آباد خلق خداد کی پہنچ سے دور کر دیئے گئے ہیں اور بے شک اس خلق خدا کے اقتصادی حالات انگریز اور ہندو کی غلامی والے دور کے ہمارے اقتصادی حالات سے بھی بدتر ہیں‘ بے شک ہم غلامی در غلامی کے شکنجے میں کسے جا رہے ہیں‘ اپنی حمیت‘ آبرو‘ آزادی بھی دشمن کے پاس گروی رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں اور بے شک غربت‘ افلاس‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور بجلی پانی سے محرومی ہمارے مقدر کا حصہ بنا دی گئی ہے‘ بے شک یہاں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی گزارنے والے مجبور و مقہور انسان اپنی بے چارگی سے عاجز آکر خودکشیاں‘ خودسوزیاں کر رہے ہیں اور تنگ آمد بجنگ کی ٹھانے بیٹھے ہیں اور بے شک ڈرون حملوں سے گھائل ہونے والی ہماری خودداری کو آخری سانس تک پہنچانے کی ملی بھگت چل رہی ہے‘ ہمیں مال غنیمت سمجھ کر لوٹنے والوں کو ہی بالآخر اس ارض وطن کی بوٹیاں نوچتے‘ ہلکان ہوتے اپنے اگلے عزائم سے تائب ہونا پڑیگا کیونکہ ہم تو اجڑ کر بھی آباد رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ آج ہمیں اپنے پیارے وطن کے جنم دن پر اچھی اچھی‘ پیاری پیاری باتیں کرنی چاہئیں۔ وہ باتیں جو ہماری معاشرت کی عکاسی کرتی ہیں اور مسائل میں گھر کر بھی گزرتی جانے والی ہماری زندگیوں کی زندہ دلی کی گواہی دے رہی ہیں۔ آج کے دن کیلئے پیاری باتوں کی خوشبو لئے ایک ایس ایم ایس ملاحظہ فرمائیے اور اپنی آزادی کا جشن منائیے۔
آﺅ بات کریں
لائٹ چلی گئی ہے، لائٹ آگئی ہے
لائٹ جانے والی ہے، لائٹ آنے والی ہے
لائٹ نہیں آئی، لائٹ نہیں گئی
لائٹ جا بھی سکتی ہے، لائٹ آ بھی سکتی ہے
لائٹ ڈم آرہی ہے، لائٹ تیز آرہی ہے
لائٹ آ کیوں نہیں رہی، لائٹ جا کیوں نہیں رہی
اوہ گئی جے، اوہ آگئی جے
آﺅ باتیں کریں
پیارے پاکستان کی پیاری باتیں“