بھارتی انتخابات ” مسلمانوں کے دشمن کی کامیابی“

7مراحل اور 73 دن پر محیط بھارتی لوک سبھا کے انتخابات 2024ءاختتام پڑیر ہوئے، 20 مارچ سے شروع ہونے والے انتخابی مہم کا آخری فیز یکم جون کو تمام ہوا۔ 543 کے ایوان کے لیے حکمران جماعت ( بی جے پی) اور اس کی اتحادی جماعتیں 380 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے ہیں! صاف نظر آرہا ہے کہ نریندر مودی تیسری بار وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہو جائیں گے۔ متشدد ہندوو¿ں کی جماعت (بی جے پی ) نے'' گائے' پاکستان اور مسلمان'' مخالف بیانیے پر ایکشن لڑا اور حیرت انگیز طور پر کامیابی سمیٹی۔ گویا بی جے پی کارکردگی اور اپنے منشور پر انتخابات لڑ سکتی ہے نہ ممکنہ رزلٹ پا سکتی ہے۔ مودی پارٹی کی مسلم دشمنی کے ثبوت کے لیے ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی کے کل 328 امیدواروں میں سے صرف ایک مسلمان امیدوار محمد عبدالسلام شامل تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی مسلمان امیدوار کے انتخابی جلسہ میں علامتی طورپر شریک ہوئے۔گانگریس اور اس کی ہم خیال جماعتوں کے الائنس (کولیشن انڈیا) کے حصے میں 165 نشستوں کی بازگشت ہے۔ گانگریس خود کو مسلمانوں کی ہمدرد جماعت کے طورپر پیش کرتی ہے۔ 2014ءمیں اس نے 19 جبکہ آخری الیکشن (2019 میں) 31 مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے۔
گجرات' اڑیسہ' اندرا پردیش' چھتیس گڑھ' پنجاب اور کیرالہ کے رزلٹ بی جے پی کے حق میں آئے۔ ایگزٹ پول سروے اور جائزے حکمران جماعت کی فتح کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ یہ وہی گیلپ سروے ہیں جن پر اپوزیشن رہنما اروند کیچروال اور اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی تبصرہ کرچکے ہیں۔ سروے'' مودی گیلپ ''ہیں جن کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ان فرضی تجزیوں اور امکانات سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش بلکہ سازش کی گئی۔ مسلمانوں نے 1996ءمیں بی جے پی کو دو فیصد ووٹ دئیے 2019ءمیں یہ تعداد بڑھ کر سات فیصد تک چلی گئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ مسلمان قوم کو 1947ءکے بعد جس جماعت کے دور اقتدار میں سب سے زیادہ تختہ مشق بنایا گیا وہ بی جے پی ہی تھی۔ مسلمانوں کا آج بھی عرصہ حیات تنگ ہے۔ انہیں معاشرتی' سیاسی ' تعلیمی یہاں تک کہ مذہبی آزادی تک حاصل نہیں بلکہ اب تو ہندوستان اقلیتوں کے لیے جہنم کا روپ دھار چکا ہے، ہندوستان میں آج بھی 200 ملین مسلم آبادی میں سے 57 فیصد لوگ پسماندگی کی آخری حد کو چھو رہے ہیں ،اگر یہی صورت حال رہی تو ہندوستان کے لیے 2030ءتک معاشی سطح پر سات ٹریلین ڈالر کی اکنامک اسٹیٹ بننا مشکل ہو جائے گا۔
 مشہور سکالر مورخ ابن خلدون نے کہا کہ تاریخ انسان کو خود کشی سے بچاتی ہے یعنی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا خودکشی سے بچ جاتا ہے اور تاریخ کا سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں۔ دو ارب کی ریاست صرف ہندوو¿ں متشدد ہندوو¿ں کی اسٹیٹ بن چکی، جہاں ہندو توا کے نظریات کا پرچار کرنے والوں کی بقاءہے۔ جمہوریت ' سیکولر اور انسان دوستی سب نظریات اور فلسفے کاغذوں تک محدود ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی وہ رپورٹ جس میں انکشاف کیا گیا کہ ہندوستان کی 6.3 آبادی کو صاف پانی میسر نہیں۔ بھارت میں 90 کروڑ کے قریب لوگوں کو ایک وقت کی روٹی میسر نہیں، اس سے بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی صحت سہولتوں تک رسائی نہیں۔یہ ہے مودی کا وہ شائنگ انڈیا جہاں حکومت چاند پر پہنچ گئی مگر وہ اپنے غریب ووٹرز تک نہیں پہنچ پائی۔ حیرت تو یہ ہے کہ حکمران جماعت 73 دن کے طویل ترین انتخابی عمل کے دوران بھی اپنے غریب ہندوستانی ووٹر کا خیال نہ رکھ سکی۔
یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 2014ءکے بعد سے مودی کے جادو نے مسلم ووٹ کو اس حد تک بے وقعت اور بے وزن بنایا کہ سیکولر پارٹیاں بھی ان کو دور سے ہی سلام کرکے بس ووٹ دینے کی درخواست کرتی رہیں۔ مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ نے مسلم ووٹ کو بے وزن کرنے کا فارمولہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ مسلم اکثریتی یا اثرورسوخ والے حلقوں میں لاتعداد مسلم امیدواروں کو بطور آزاد امیدوار کھڑا کر دو تاکہ مسلم ووٹ ان میں تقسیم ہو جائے اور پھر کئی درجن سیکولر پارٹیاں بھی ان حلقوں میں مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیتی تھیں جس سے ان کے ووٹ مزید تقسیم ہو جاتے۔ دوسری طرف ہندو ووٹوں کو ہندو توا کا جام پلا کر سیٹیں اپنے نام کر لی جاتیں ، اس لیے 2014ءمیں 86 مسلم اکثریتی سیٹوں میں سے بی جے پی کو 38 اور پھر 2019ءمیں 36 سیٹیں مل گئیں۔ 
سیکولر پارٹیوں کے لیڈروں کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے اس بار انہوں نے قلیل تعداد میں مسلمانوں کو میدان میں اتارا۔ ان کے مطابق پچھلے کئی سالوں میں بہار اور مغربی بنگال میں جو اسمبلی انتخابات ہوئے ان میں مسلمانوں نے جم کر بالترتیب راشٹر یہ جنتا دل اور ممتازبنر جی کی ترنمول کانگریس کے ہندو امیدواروں کو ووٹ ڈالے اور کانگریس اور بائیں بازو کی طرف سے کھڑے کیے گئے مسلم امیدواروں کو مسترد کر دیا۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ جہاں مسلمان تھوڑا بہت طاقت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہاں ہندو ووٹ پولرائز ہوتا ہے۔ اس کے ذمہ دار مسلمان بڑی حد تک خود ہی ہیں کہ پچھلے ایک ہزار سالوں سے وہ ابھی تک ہندو یا دیگر مذاہب کے پڑوسیوں تک کوئی آوٹ ریچ کرسکے ہیں نہ ان کو بتا پائے ہیں کہ وہ ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جوامن کا داعی ہے۔انڈیا ٹوڈے کے مطابق کچھ مسلمان ووٹرز نے بتایا کہ 2014ءکے بعد سے ان کی معاشی صورت حال ابتر ہوگئی دیگرمذاہب میں صرف 35 فیصد نے اس طرح کی بات کی۔ اس لیے انتخابی تجزیہ کاروں کو لگتا ہے کہ شاید مسلمانوں نے اس بار اسٹریجک ووٹنگ کی ہو۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن