28مئی کا کریڈٹ

یوم تکبیر پر ہونیوالی عام تعطیل پورا ہفتہ زیربحث     رہی۔ 28 مئی کو ہی میاں محمد نواز شریف کو مسلم لیگ ن کا دوبارہ صدر بنا دیا گیا۔ اس خوشی میں بھی چھٹی تو بنتی تھی اور یوم تکبیر پر چھٹی کا ایک مقصد ایٹمی دھماکے کو ازسرنو زیر بحث لانا بھی تھا تاکہ میاں محمد نواز شریف کی کارکردگی کو دوچند کیا جا سکے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ میاں محمد نواز شریف کی خوش بختی تھی کہ وہ ان دنوں وزیر اعظم تھے اور تاریخ میں ان کا نام ایٹمی دھماکے کا بٹن دبانے والے کے طور پر رقم ہو گیا۔ اس وقت جو بھی وزیراعظم ہوتا یہ کریڈٹ اس کے کھاتے میں ڈلنا ہی ڈلنا تھا۔ مسلم لیگ اس کا کریڈٹ اس طرح لینے کے بجائے کہ ایٹمی دھماکے ہم نے کیے، اگر اس کو ایسے بیان کرے کہ اللہ نے یہ کام نواز شریف سے لیا تو اس میں رب کا شکر بھی شامل حال ہو جاتا ہے اور عاجزی بھی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ 
ہمارے سیاستدانوں کو عادت ہے کہ وہ چھینک بھی ماریں تو اسے سیاسی طور استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ چھینک حضرت قائد اعظم کی یاد میں آئی ہے۔ ہر سیاستدان اپنے آپ کو قائداعظم کا وارث ظاہر کرتا ہے اور قائد کی روح کو کتنی تکلیف ہوتی ہو گی جب ان کی حاصل کردہ مملکت میں کوئی بھوک ننگ کی وجہ سے خودکشی کرتا ہو گا۔جب کوئی بجلی گیس کا بل نہ دینے کی وجہ سے پریشان ہوتا ہو گا۔ جب کوئی انصاف نہ ملنے کی وجہ سے بےگناہ قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہو گا۔ جب کوئی عورت اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے اپنا جسم بیچتی ہو گی۔ جب کوئی طاقتور کسی غریب کی متاع حیات زور زبردستی ہڑپ کر جاتا ہو گا۔ جب کوئی حق دار رشوت نہ دینے کی پاداش میں اپنے حق سے محروم ہو جاتا ہو گا۔ کیا یوم حساب کو بااختیار لوگ اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پر بچ پائیں گے؟۔ اس دنیا فانی میں آپ جتنے مرضی جگاڑ لگا کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر لیں لیکن جب سب کچھ آپ کے آگے رکھ دیا جائے گا تو آپ مطمئن نہیں کر پائیں گے۔ خدارا خلق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ 
معذرت خواہ ہوں بات ایٹمی دھماکوں کے کریڈٹ کی ہو رہی تھی اور بات کسی اور جانب نکل گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی اور انھوں نے اس پر پہرہ دیا اس کے بعد جنرل ضیاالحق کے دور میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ضیاالحق نے اس وقت کے حالات کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ اس وقت جہاد افغانستان ہو رہا تھا اور پاکستان امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا۔ پاکستان روس کو توڑنے کی امریکی خواہش میں کلیدی کردار ادا کر رہا تھا۔ ایسے میں امریکہ پاکستان پر کوئی دباو¿ نہیں ڈال سکتا تھا بلکہ وہ پاکستان کی چاپلوسی سے اپنا کام نکلوا رہا تھا۔ ضیاالحق نے ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا تھا۔ اس کا اظہار انھوں نے راجیو گاندھی سے ملاقات میں بھی کر دیا تھا اور بھارتی صحافی کلدیپ نائر سے ڈاکٹر عبدالقدیر کا انٹرویو کروا کر اس میں بھی واضح کر دیا تھا کہ کوئی کسی بھول میں نہ رہے ہم ایٹمی قوت بن چکے ہیں۔
 1990ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب نے مجھے خود ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ ہم نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے ہم تیار ہیں جب مرضی بٹن دبالیں۔ ایٹمی پروگرام میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے بنیادی کردار کو کوئی کیسے جھٹلا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور درجنوں انجینئرز ورکرز کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کیا غلام اسحاق خان کے کردار کو بھلایا جا سکتا ہے جنھوں نے ساری عمر اس پروگرام پر پہرہ دیا اور کسی لمحے بھی فنڈز کی کمی نہ ہونے دی۔ اور پھر سب سے بڑھ کر امام صحافت جناب مجید نظامی کے کردار کو بھلا فراموش کیا جا سکتا ہے جنھوں نے نواز شریف سے اچھے تعلقات ہونے کے باوجود انہیں خبردار کیا کہ اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔
 ایٹمی قوت کے حصول میں ان لوگوں کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جنھوں نے خاموشی سے اپنا کام کیا اور آج تک اس کا کریڈٹ لینے کی بھی کوشش نہیں کی۔ بریگیڈیئر انعام الحق ٹیکنالوجی کے حصول میں کردار ادا کرتے کرتے جرمنی سے امریکہ کی قید میں چلے گئے۔ میاں سعید ڈیرے والا کی فیکٹری میں خاموشی کے ساتھ سانچے ڈھالے گئے۔ سیٹھ عابد مرحوم کی خدمات اور ایسے ہی بےشمار گمنام ہیرو ہیں جن کا کردار سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان کا واحد پروگرام ہے جس پر ہر پاکستانی نے قومی جذبہ کے تحت کام کیا۔ شدید ترین مخالفین نے بھی اس پروگرام پر قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا اور ایک دن بھی کام متاثر نہ ہونے دیا۔ اگر ہم قومی جذبہ کے تحت ایٹمی پروگرام کو محفوظ طریقے سے مکمل کر سکتے ہیں تو ہم غربت مہنگائی بےروزگاری بدامنی بےانصافی توانائی کے بحران اور معاشی بحران سے بھی نکل سکتے ہیں۔ لیکن اس میں سب کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول والا جذبہ اور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...