وغیرہ وغیرہ……عبداللہ طارق سہیل۔
مولانا فضل الرحمن ایثار پیشہ آدمی ہیں۔اب دیکھئے، اپنے لئے شہد کچھ بھی بچا کر نہیں رکھا، جتنا تھا سب بھارت اور پی ٹی آئی کے کانوں میں گھول دیا۔ مظفر گڑھ میں جلسہ کیا اور خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج نے سارا بنگال بھون ڈالا۔
سارا بنگال یعنی وہ جس کی آبادی 1971ء میں ساڑھے پانچ یا چھ کروڑ تھی۔ آسمانوں پر ستارے برج تبدیل کر رہے ہیں۔ کوئی کسی برج میں گھس جاتا ہے کوئی کسی میں۔ اور ستاروں کی اس گھس بیٹھ ہی کا نتیجہ، شاید، یہ ہے کہ اچانک سے بہت سے لوگوں کو 1971ء کے واقعات کی یاد آ گئی ہے اور اس بْری طرح آ گئی ہے کہ کہنے کو اور کوئی بات سوجھتی ہی نہیں۔ مولانا بھی اپنا لائو لشکر لے کر اس بھیڑ چال میں شامل ہو گئے ہیں۔
1971ء میں کیا ہوا، اس وقت کی عسکری قیادت نے جو کیا، ہر ایک نے اس کی مذمت کی ہے اور کرنی بھی چاہیے لیکن جنگ و جدل کی شروعات کس نے کی؟ یحییٰ خان نے بھٹو مرحوم کی ملی بھگت کے ساتھ قومی اسمبلی کا ڈھاکہ میں ہونے والا اجلاس ملتوی کر دیا جس پر مشرقی پاکستان میں اشتعال پھیلا اور پھیلنا چاہیے بھی تھا۔ لیکن عوامی لیگ نے اشتعال سے کہیں آگے نکل کر کچھ اور ہی شروع کر دیا۔ ایسا کچھ اور کہ کسی کے خواب و گماں میں بھی نہیں تھا۔ عوامی لیگ نے بھارت کی مدد سے غیر بنگالیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ دو مہینے کے قتل عام میں دو لاکھ بہاری، پنجابی اور پٹھان قتل کر دئیے۔ کرنا فلی، میمن سنگھ، نارائن گنج کے علاقے لاشوں سے پٹ گئے۔ ڈھاکہ میں بھی قتل عام کیا۔ آدھے سے زیادہ غیر بنگالی مار ڈالے، آدھے سے کم نے پناہ لی۔ فوجی آپریشن اس کے بعد شروع ہوا، اس سے پہلے نہیں۔
مولانا 53 برس بعد اس فوجی آپریشن کی مذمت کر رہے ہیں، ضرور کریں لیکن عوامی لیگ نے جو ’’غیر فوجی آپریشن‘‘ شروع کیا تھا اور اس ملٹری ایکشن سے پہلے شروع کیا تھا، اس کے حق میں بھی کلمہ خیر بول دیں۔ عوامی لیگ اپنے اس غیر فوجی آپریشن میں بھارت کا توپ خانہ بھی لے آئی تھی۔ مولانا اس بھارتی توپ خانے کے فضائل بھی بیان فرما دیں۔
____
مولانا وقت کے تقاضے کو سمجھتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فوج پر حملے کئے جائیں چنانچہ وہ یہ تقاضا پورا کر رہے ہیں۔ دو عشرے پیشتر وہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ رہے۔ پورے آٹھ برس مولانا مشرف کے اتحادی، ساتھی اور سنگی رہے۔ ان کے حق میں تقریریں کیں۔ ان کی مدد سے دو صوبوں میں حکومتیں بھی بنائیں، ان کی وردی کے حق میں ووٹ دیا، وردی کے فضائل بیان کئے۔
وہ چاہتے تو بنگال کو بھون ڈالا والا خطاب تب بھی کر سکتے تھے لیکن تب یہ وقت کا تقاضا نہیں تھا۔ مولانا وقت کا تقاضا کل بھی سمجھتے تھے ، آج بھی سمجھتے ہیں۔
____
1971ء کے واقعات کا صدمہ پی ٹی آئی کو بری طرح لاحق ہوا ہے۔ اپنی 28 سالہ کندھا سوار جدوجہد کے دوران خان اور ان کی جماعت کو حمود الرحمن کمشن کی رپورٹ پڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اب یہ رپورٹ پڑھی ہے تو خون یکایک کھول اٹھا۔ بعض واقفان حال کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں کسی ایک نے بھی یہ رپورٹ نہیں پڑھی، اس کا ٹائیٹل تک نہیں دیکھا۔ کمال ہے، اتنی موثر رپورٹ کہ بغیر پڑھے ہی خون کھول اٹھا۔
حمود الرحمن کمشن میں سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داروں کی لمبی فہرست ہے۔ اکثر ان میں سے مر کھپ چکے اور جو مر کھپ چکے، ان کی بھی اور جو بچ رہے، ان کی بھی جملہ کی جملہ اولاد پی ٹی آئی میں موجود ہے اور حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اب اس ماجرے کو کیا نام دینا چاہیے۔
ایک سوال اور بھی ہے۔ معاملہ حمود الرحمان کمشن کا ہے یا موجودہ چیف حافظ عاصم منیر سے نجات کا۔ حافظ صاحب ان کی دکھتی رگ ہیں۔ انہیں بشریٰ بی بی کی ’’بشارت‘‘ کی روشنی میں آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے ہٹایا گیا اور پھر ان کی تقرری بطور آرمی چیف رکوانے کیلئے نظام شمسی کی تاریخ کے سب سے زیادہ پاپڑ بیلے گئے لیکن ہونی نہ ٹلی۔ اب اس کا غصہ نکل رہا ہے۔
____
خبر ہے کہ 8 جون کو امریکہ میں پاک بھارت میچ ہے اور اس موقع پر پی ٹی آئی اور بھارتی ’’را‘‘ الگ الگ مظاہرے کرے گی جن میں پاک فوج کو نشانہ بنایا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے بہت سے ٹرک کرائے پر لے کر ان کے دونوں طرف پاک فوج کیخلاف پوسٹر اور بینر لگا دیئے ہیں، ادھر را نے الگ انتظامات کئے ہیں۔
پی ٹی آئی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس نے اسرائیل کے خلاف ایک بھی مظاہرہ نہیں کیا، علامتی بھی نہیں کہ دو آدمی ایک بینر اسرائیل کے خلاف لے کر خاموش کھڑے ہو جائیں۔
وجہ اس کی آزادی پسندوں نے بتائی ہے کہ اسرائیل کے خلاف بات کی تو امریکہ ناراض ہو جائے گا اور امریکہ ناراض ہو گیا تو حقیقی آزادی کیسے ملے گی؟۔ حقیقی آزادی کے تقاضوں کو پی ٹی آئی سے بڑھ کر کون سمجھتا ہے۔
____
ایک بڑے میڈیا گروپ کے بعض اینکر پرسن پاکستان ٹوٹنے کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں۔ بتا رہے ہیں کہ پاکستان 2030ء میں (چھ سال بعد) ختم ہو جائے گا۔ کیوں؟۔ ان اینکرز کے مطابق چونکہ بھارتی تھنک ٹینک ایسا کہہ رہے ہیں۔ بھارتی تھنک ٹینکوں کا یہ دعویٰ کوئی رھسیہ ادھ گاٹن (آسمانی وحی) نہیں ہے، ان کی خواہش ہے اور شاید ان اینکرز کی بھی۔ خواہش یا ان کی منوکامنا تو اور بھی بہت ہیں لیکن پاکستان تو رہے گا۔ 2030ئمیں یہ اگلی تاریخ دے دیں گے۔