پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی لٹریری سوسائٹی کے زیراہتمام 2 مارچ 2010ءکو لاہور پریس کلب کے نثار عثمانی ہال میں پاکستان کے ایک ممتاز صحافی رانا محمد شفیق پسروری کی کتاب ”شریف قیادت“ جلاوطنی سے اہلیّت تک“ کے تعارف کے لئے ایک محفل آراستہ کی گئی جس کی صدارت کے فرائض پاکستان کے ایک سابق صدر چودھری محمد رفیق تارڑ نے ادا کئے۔ آج کی تقریب میں ان کی تقریر کے دوران خصوصی طور پر حالات اس طرح بگڑے کہ ہم جو اس انجمن کے آخری حصے میں براجمان تھے ان کے اشحاتِ افکار سے آخر میں بالکل ہی محروم رہے مگر اس وقت سٹیج پر موجود ایک شخصیت نے بتایا کہ جب بجلی غائب اور لاوڈ سپیکر خاموش ہو گیا تو پھر رفیق تارڑ کی آواز کو سٹیج پر بیٹھی ہوئی شخصیات بھی ترستی رہیں البتہ ابتدا میں جبکہ بجلی جلوہ گر تھی تو ہم نے رفیق تارڑ کو وہ کہتے ہوئے ضرور سماعت کیا کہ میں تو سیاسی اور دیگر نوعیت کی قومی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو کر گوشہ نشین ہو جانے کا فیصلہ کئے ہوئے تھا مگر کتاب کے مصنف میری رہائش گاہ پر تشریف لے گئے اور میرے عذر و بہانہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتے ہوئے اس طرح مصر رہے کہ میں یہاں پہنچ گیا اور جب یہاں پہنچا تو ایک (فلمی گانے کا ایک) مصرع یاد آیا کہ:
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
کیونکہ میاں برادران کی جلاوطنی کے زمانے میں مجھے کئی بار اس ہال میں منعقدہ جلسوں میں شرکت کرنے کے لئے آنا پڑا۔ میاں برادران کی داستانِ محرومی اقتدار کا ذکر کرتے ہوئے مقرر نے فرمایا کہ میاں نوازشریف کی داستان دراصل استقامت کی ایک داستان ہے وہ چاہتے تو 12 اکتوبر1999 ءکی رات ہی کو قیدو بند کی صعوبتوں سے محفوظ ہو سکتے تھے کیونکہ (ان کی حکومت) کا تختہ الٹ دئیے جانے کے بعد تین جنرلز ان کے پاس آئے تھے انہوں نے میاں نوازشریف کے سامنے ایک کاغذ رکھا کہ اس پر دستخط کر دیجئے تو آپ بالکل آزاد متصور ہوں گے پھر آپ چاہے ماڈل ٹا¶ن جائیں یا رائے ونڈ (کے قریب جاتی عمرہ کے محل میں تشریف لے جائیں) مگر میاں نوازشریف نے اس کاغذ پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بے پایاں فضل و کرم سے ان کو حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کی تقویت عطا فرما دی اور میاں نوازشریف نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کاغذ پر مجھ سے دستخط نہیں کرا سکتی، اس کاغذ پر وہی لکھا تھا کہ ”میں (بطور وزیراعظم پاکستان) صدرِ پاکستان کو تجویز کرتا ہوں کہ وہ اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں“ مگر میاں نوازشریف نے کہاکہ میری زندگی میں تو کوئی وہ نہیں کر سکتا وہ اگر ہوگا تو میری لاش پر سے گزرنے کے بعد ہی ہوگا، اس کے بعد ان جنرلز نے ان کو دھمکیاں بھی دیں اور ابتلا و آزمائش کا ایک طویل دور شروع ہو گیا، ایک سال کی اذیت ناک قید کے بعد ان کو جلاوطن کر دیا گیا اور جدّہ میں اپنے قیام کے دوران میاں برادران کے والد گرامی میاں محمد شریف ان کو اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے جاتے اور وہاں مسجد نبویﷺ میں نوافل ادا کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہتے مگر اس دور کے حکمران نے ظلم و زیادتی کا وہ انداز اختیار کیا کہ جب میاں محمد شریف وفات پا گئے تو ان کے بیٹوں کو اپنے والد کے جنازے میں بھی شامل نہ ہونے دیا گیا۔ اس داستان کو اس کتاب کے مصنف نے اپنے انداز میں وقتاً فوقتاً اپنے کالموں میں رقم کیا، اس تقریب میں جناب قدرت اللہ چودھری، جناب مجیب الرحمان شامی اور تہمینہ دولتانہ کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر منشاءاللہ بٹ، سجاد میر، حکیم راحت نسیم، پروفیسر تنویر قاسم، حافظ عبدالرحمان، مرزا عبدالقیوم اور مہناز عطا چودھری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا مگر ان تمام مقررین میں مجیب الرحمان شامی کا جوش و جذبہ اور قومی و ملّی مقاصد کے باب میں ان کی تڑپ کا منظر آج بھی دیدنی تھا انہوں نے کہا کہ جب میاں برادران کو گرفتار کیا گیا، ان کو قید و بند میں ڈالا گیا، ان پر مقدمات قائم کئے گئے اور ان کو جلاوطن کر دیا گیا تو خوف کی ایک ایسی فضا قائم کر دینے کی کوشش کی گئی کہ جس میں قلم کی عصمت و آبرو کا تحفظ کرنا کچھ آسان نہ تھا مگر اس کتاب کے مصنف جو ایک اچھے مقرر اور دینی شخصیت ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ جن کے وجود میں کئی شخصیات جمع ہیں میاں نوازشریف کا ساتھ دیتے ہوئے بھی اپنے غیرجانبدارانہ تاثر کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے، ان کا نام آتے ہی مجھے مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان یاد آجاتے ہیں، آج مجیب الرحمان شامی نے پاکستان میں اسلامی اقدار کے تحفظ اور نظریہ پاکستان کی اہمیت و بقاءکی ضرورت پر بھی نہایت جذباتی انداز میں گفتگو کی، وہی حال قدرت اللہ چودھری کا بھی تھا۔
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
کیونکہ میاں برادران کی جلاوطنی کے زمانے میں مجھے کئی بار اس ہال میں منعقدہ جلسوں میں شرکت کرنے کے لئے آنا پڑا۔ میاں برادران کی داستانِ محرومی اقتدار کا ذکر کرتے ہوئے مقرر نے فرمایا کہ میاں نوازشریف کی داستان دراصل استقامت کی ایک داستان ہے وہ چاہتے تو 12 اکتوبر1999 ءکی رات ہی کو قیدو بند کی صعوبتوں سے محفوظ ہو سکتے تھے کیونکہ (ان کی حکومت) کا تختہ الٹ دئیے جانے کے بعد تین جنرلز ان کے پاس آئے تھے انہوں نے میاں نوازشریف کے سامنے ایک کاغذ رکھا کہ اس پر دستخط کر دیجئے تو آپ بالکل آزاد متصور ہوں گے پھر آپ چاہے ماڈل ٹا¶ن جائیں یا رائے ونڈ (کے قریب جاتی عمرہ کے محل میں تشریف لے جائیں) مگر میاں نوازشریف نے اس کاغذ پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر دیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بے پایاں فضل و کرم سے ان کو حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کی تقویت عطا فرما دی اور میاں نوازشریف نے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کاغذ پر مجھ سے دستخط نہیں کرا سکتی، اس کاغذ پر وہی لکھا تھا کہ ”میں (بطور وزیراعظم پاکستان) صدرِ پاکستان کو تجویز کرتا ہوں کہ وہ اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں“ مگر میاں نوازشریف نے کہاکہ میری زندگی میں تو کوئی وہ نہیں کر سکتا وہ اگر ہوگا تو میری لاش پر سے گزرنے کے بعد ہی ہوگا، اس کے بعد ان جنرلز نے ان کو دھمکیاں بھی دیں اور ابتلا و آزمائش کا ایک طویل دور شروع ہو گیا، ایک سال کی اذیت ناک قید کے بعد ان کو جلاوطن کر دیا گیا اور جدّہ میں اپنے قیام کے دوران میاں برادران کے والد گرامی میاں محمد شریف ان کو اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے جاتے اور وہاں مسجد نبویﷺ میں نوافل ادا کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہتے مگر اس دور کے حکمران نے ظلم و زیادتی کا وہ انداز اختیار کیا کہ جب میاں محمد شریف وفات پا گئے تو ان کے بیٹوں کو اپنے والد کے جنازے میں بھی شامل نہ ہونے دیا گیا۔ اس داستان کو اس کتاب کے مصنف نے اپنے انداز میں وقتاً فوقتاً اپنے کالموں میں رقم کیا، اس تقریب میں جناب قدرت اللہ چودھری، جناب مجیب الرحمان شامی اور تہمینہ دولتانہ کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر منشاءاللہ بٹ، سجاد میر، حکیم راحت نسیم، پروفیسر تنویر قاسم، حافظ عبدالرحمان، مرزا عبدالقیوم اور مہناز عطا چودھری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا مگر ان تمام مقررین میں مجیب الرحمان شامی کا جوش و جذبہ اور قومی و ملّی مقاصد کے باب میں ان کی تڑپ کا منظر آج بھی دیدنی تھا انہوں نے کہا کہ جب میاں برادران کو گرفتار کیا گیا، ان کو قید و بند میں ڈالا گیا، ان پر مقدمات قائم کئے گئے اور ان کو جلاوطن کر دیا گیا تو خوف کی ایک ایسی فضا قائم کر دینے کی کوشش کی گئی کہ جس میں قلم کی عصمت و آبرو کا تحفظ کرنا کچھ آسان نہ تھا مگر اس کتاب کے مصنف جو ایک اچھے مقرر اور دینی شخصیت ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ جن کے وجود میں کئی شخصیات جمع ہیں میاں نوازشریف کا ساتھ دیتے ہوئے بھی اپنے غیرجانبدارانہ تاثر کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے، ان کا نام آتے ہی مجھے مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان یاد آجاتے ہیں، آج مجیب الرحمان شامی نے پاکستان میں اسلامی اقدار کے تحفظ اور نظریہ پاکستان کی اہمیت و بقاءکی ضرورت پر بھی نہایت جذباتی انداز میں گفتگو کی، وہی حال قدرت اللہ چودھری کا بھی تھا۔