کچھ ”اپنے“ باقی ”پرائے“ !

”ایک تو تمہارے پاس ”دماغ“ نام کی کوئی چیز نہیں!“ راوی کنارے ایک مینڈک نے آدھ گھنٹے کی سمع خراشی کے بعد گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا تو ہم نے جواباً عرض کیا، ”ہے! دماغ تو الحمدللہ ہے! مگر ....!“ ”نہیں ہے!“، مینڈک نے ہمارا جملہ کاٹتے ہوئے کہا، ”نہیں“، نہیں، نہیں، نہیں! ہرگز نہیں! تمہارے پاس ”دماغ“ نام کی کوئی چیز نہیں! اور یہ کہہ کر راوی میں چھلانگ لگا دی! ہم آج تک نہیں جان پائے کہ اس میں خودکشی کر لینے والی کون سی بات تھی! یہ ”خونِ ناحق“ ہمارے اعصاب پر سوار ہمیں گلی گلی پھراتا رہا کہ اُس کے وُرثا مل جائیں اور ہم اَن سے اپنی ”کُج بحثی کی عادت“ پر معافی کے خواست گار ہو کر اپنے دامن کا یہ دھبہ دھو لیں مگر ایک ”بھارتیہ ساسُو ماں جی“ کا احوال پڑھ کر ہمیں احساس ہُوا کہ دُنیا کتنی آگے جاچکی ہے!
قَصہ کچھ یوں ہے کہ ”ساسُو ماں“ نے اپنے دامادوں کی ”وفاداری“ کی آزمانے کی خاطر جان بوجھ کر دریا میں گر پڑنے کی ”اداکاری“ کی، ”اتفاق“ سے ”بڑے داماد جی“ ساتھ تھے، انہوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ اور ”ماں جی“ کے پیچھے دریا میں چھلانگ لگا دی! اور اُنہیں ”ڈوبنے“ سے بچا لیا! رات ہسپتال میں اَن کے سرہانے گزاری! ڈاکٹروں نے ”فٹنس سرٹیفکیٹ“ جاری کر دیا تو اُنہیں گھر پہنچا کر واپس گھر پہنچے تو دروازے پر نئی ”ماروتی“ کار اُن کے استقبال کےلئے موجود تھی!
کچھ دنوں بعد پورا خاندان ”گنگا اشنان“ کو نکلا تو ”اتفاق“ سے منجھلا داماد قریب تھا اور وُہ دیکھ کر کہ گنگا کی لہریں اُس کی ”ساسُو ماں“ کو ”سورگ“ کی طرف کھینچے لئے جارہی ہیں، بے تابانہ لپکا اور ”ماں جی“ ایک بار پھر ڈوبتے ڈوبتے بچا لی گئیں! خاندان واپس اپنے شہر پہنچا تو منجھلے داماد کے گھر کے صحن میں ایک ”بجاج“ سکوٹر کھڑا چمچما رہا تھا!
کچھ دن بعد یہی حادثہ چھوٹے داماد جی“ کے ہوتے پیش آیا تو اپنی جگہ بیٹھے ماں جی کے ڈوبنے کا نظارہ کرتے رہ گئے! وُہ ایک ”نئی سائیکل“ کےلئے اس جھنجٹ میں پڑنے کےلئے تیار نہیں تھے!
بھارتیہ ساسُو ماﺅں، بہوﺅں اور دامادوں کے درمیان موجود کشاکش پاکستانی ناظرین کےلئے بڑی دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے اور وُہ ابھی تک یہ ”ڈرامے“ پوری توجہ سے دیکھ اور ”بھارتیہ جنتا“ کی نفسیات سمجھنے میں مشغول ہیں!
اگلی قسط میں ”چھوٹے داماد جی“ کے چرنوں میں دس لاکھ روپے کی بھینٹ چڑھاتے ”ساسُر جی“ نے کہانی میں وُہ رنگ بھر دیا جسے خالص ”بھارتیہ جان کاری“ کا رنگ کہنا چاہئے!
بھارت اگر مسکرا رہا ہو تو اسے آپ سے کام ہے! بھارت اگر گڑگڑا رہا ہو تو اسے آپ سے دو کام ہیں اور اگر بھارت آپ کے پاﺅں پڑ رہا ہو تو جان لیں کہ اسے آپ سے آخری کام ہے اور اگر آپ نے اسے ”چرن“ چھو لینے دیئے تو وہ آپ کو ہوا میں بلند کر دے گا! چھلکا سڑک پہ تھا! مری ٹانگیں ہوا میں تھیں!
”کیلے کے چھلکے“ جیسی بھارتی حکمتِ عملی کا مزہ بہت سے ممالک چکھ چکے ہیں! اس حکمتِ عملی کا ذائقہ تو ہمارے رگ و پے تک سرایت کر چکا ہے! اور ہم ان کے دیئے ہوئے درس کو اپنا ”درسِ نظامی“ جان کر دُوہرائے چلے جارہے ہیں! ہم شیعہ، حنفی، دیوبندی، اہلِ حدیث اور بریلوی بنے بیٹھے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ تمام صفوں میں گھس آئے ہیں اور ہم انہی کی زبان بول رہے ہیں!
ہم جنہیں ایک ”مینڈک“ کی جان کی پروا سونے نہیں دیتی، اب ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر بھی شرمندہ ہونا چھوڑ بیٹھے ہیں! ہم کدھر جارہے ہیں؟ ایک لمحہ رُکنے اور اِردگرد کا منظر دیکھ لینے میں کوئی ”ہرج“ بھی نہیں، ورنہ ”ہرجانہ“ تو پوری قوم بھرے گی شاہ محمود قریشی کسی کے ہاتھ آنے والے نہیں!
رہ گئے لقمان بشیر تو وہ صاف الفاظ میں کشمیر کو بنیادی مسئلہ کہہ کر جرس بجا چکے ہیں! ”ہوتا ہے جادہ پیما“ پھر کارواں ہمارا!
پاکستانی آئین میں کہا گیا ہے کہ جب کشمیری عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیں گے تو پاکستان میں اُن کی آئینی صورتِ حال ان کے مشورے سے طے ہوگی جبکہ بھارتی سفارت کار اسے ”انڈین یونین“ کا ”اٹوٹ انگ“ بتلا رہے ہیں اور ان دونوں بالکل متضاد باتوں کو ”ایک جیسا“ کہا جارہا ہے! کہاں؟ ”امن کی آشا“ کے پروردہ چینلوں پر!
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آنکھیں کھلی رکھیں اور دیکھیں کہ ”اپنے کیا کہہ رہے ہیں؟، اور پرائے کیا کہلوا رہے ہیں“؟

ای پیپر دی نیشن