گوادرپورٹ:بھارت اور امریکہ کیوں خفا ہیں؟

ہم اغیار کے اشارے پر ایک دوسرے کو غدار وطن تک ہونے کا طعنہ دینے سے نہیں چوکتے۔ سینیٹر رضا ربانی پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کوئٹہ میں ہونے والے سانحات کے ساتھ کسی فرقہ وارانہ دہشت گردی کو جوڑنے کی بجائے اس پہلو سے سوچنا چاہیے کہ ہم نے جب سے گوادر ایئرپورٹ چین کے حوالے کی ہے بھارت اس سے بہت زیادہ بے چین کیوں ہوا ہے۔ وہ اس پر اعتراض کرنے والا کون ہے اور ہم نے بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے میں برسوں کیوں لگا دیئے ہیں۔ پاکستان کے وزیرداخلہ رحمان ملک ایک بے لگام وفاقی وزیر داخلہ ہیں۔ انہوں نے دو ماہ پہلے بھارت کے دورہ پر ڈاکٹر منموہن سنگھ کو یہ بتا دیا تھا کہ ان کے پاس بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت موجود ہیں لیکن وہ آج تک یہ ثبوت بھارت کو فراہم نہیں کر سکے۔ کوئٹہ کے ہزارہ ٹا¶ن اور اس سے پہلے ہزارہ خاندان کے افراد کا بم دھماکوں سے قتل عام یہ سب بظاہر شیعہ سنی فرقہ وارانہ تصادم کا نتیجہ لگتے ہیں،پاکستان میں شیعہ فرقہ کراچی سے خیبر تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن اہل سنت والجماعت کے لوگوں یا اہلسنت کے کسی عسکری گروپ کو ہزارہ ٹا¶ن بم دھماکے میں ملوث کرنا بالکل بھی عقلمندی نہیں ہے۔ امریکہ کے وزیردفاع چیک ہیگل کی 2011ءمیں کی گئی تقریر منظرعام پر آ گئی ہے جس میں انہوں نے بھارت پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغان محاذ کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ نئی دہلی کی طرف سے افغانستان کے دہشت گردوں کی مالی امداد سے پاکستان کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور آئے روز کی دہشت گردی کی وارداتوں نے پاکستان کو مالی مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کے خلاف عالمی دہشت گردی کی جنگ میں اپنی سالمیت اور بقا دا¶ پر لگا دی ہے۔ امریکی وزیردفاع نے پاکستان کے حوالے سے بھارتی عزائم کا اظہار 2011ءمیں اپنی ایک تقریر میںکیا تھا۔ اس وقت بھی امریکہ کی طرف سے پاکستان پر ڈرون حملے ہو رہے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور امریکہ اس امر کا دعویدار بھی ہے کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ پاکستانی حکمرانوں کی مرضی سے چل رہا ہے۔ پاکستان میں امریکہ کا اپنا ایجنڈا ہے اور اس نے بینظیر انکم سپورٹ فنڈ میں سالانہ ایک ارب ڈالر کی امداد دے کر پاکستان میں سی آئی اے کے پانچ ہزار سے زائد اہلکاروں کو پاکستانی وزیروں پر پاکستان میں جاسوسی کی کارروائیوں میں مصروف کر دیا تھا حتیٰ کہ زرداری حکومت کے پہلے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے لاہور میں ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی ایجنٹ کے حوالے سے اسے امریکی سفارت خانے کا اہلکارہونے کا سرٹیفکیٹ فراہم نہیں کیا تھا جس پر انہیں نہ صرف وفاقی کابینہ سے الگ ہونا پڑا بلکہ تھوڑا عرصہ انتظار میں رہ کر انہیں وہ پاکستان پیپلزپارٹی کی رکنیت اور قومی اسمبلی کی نشست سے بھی مستعفی ہونا پڑا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی قربانی نہ دیتے اور پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کی شکل میں خود کو وزارت خارجہ کی بجائے کسی دوسرے وفاقی قلمدان سے وابستہ کر لیتے تو سید یوسف رضا گیلانی کے گھر چلے جانے کے بعد وزارت عظمیٰ کےلئے زرداری کا اگلا چوائس ہو سکتے تھے۔ لیکن امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر کے چہرے سے چہرہ ملا کر پاکستان کو امریکہ کا ہم پلہ باور کرانے والا پاکستان کا وزیرخارجہ امریکہ میں موجود پاکستان کے سفارت خانے سے ہزاروں کی تعداد میں پاکستان میں بھیجے گئے سی آئی اے کے ایجنٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ معلوم نہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی میں کہاں سے سیاسی کایا پلٹ آئی ہے کہ اس نے حکومت کے رخصت ہونے سے چند ماہ پہلے گوادر پورٹ کو سنگاپور سے واپس لے کر چین کے حوالے کرنے کا چونکا دینے والا اور دلیرانہ فیصلہ کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس امر کا مکمل ادراک ہے کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی ایک عالمی سازش روبہ عمل ہے۔ امریکہ اس سازش کا پس پردہ کردار ہے جبکہ بلوچستان میں بم دھماکوں، تخریبی کارروائیوں اور بلوچ سرداروں سے رابطوں کی ذمہ داری بھارت کے ذمہ ہے اور بھارت پاکستان دشمنی میں اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ امریکہ نے جب سے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف کابل حکومت کو سبوتاژ کر کے حامد کرزئی کو افغانستان کا حکمران بنایا ہے۔ بھارت اس وقت سے افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان کے خلاف بھارتی دشمنی کے ہر وار کو آزما رہا ہے۔ پاکستان پر آج تک جتنے خودکش حملے ہوئے اس میں جتنے ڈالر صرف ہوئے اس رقم کا انتظام بھارت کرتا رہا ہے اور یہ بات بھی وقت آنے پر کھل جائے گی کہ پاکستان کوعسکری اور اقتصادی طور پر تباہ کرنے کی ذمہ داری خود امریکہ بہادر نے بھارت کو سونپ رکھی ہے۔ امریکہ پاکستان آرمی کو اپنے لئے کارآمد نہیں سمجھتا۔ اسی وجہ سے اسنے ایبٹ آباد پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو قتل کیا اور اس کی نعش سمندر میں پھینک دی۔ یہ امریکہ کی طرف سے ماضی کے مجاہد کو سیلوٹ تھا۔ اس مجاہد کو سیلوٹ تھا جس نے سوویت یونین کو دریائے آمو سے بھی پرے دھکیل دیا تھا اور وسطی ریاستیں سوویت یونین کے تسلط سے ایک ایک کر کے آزاد ہو گئی تھیں۔ امریکہ کو روس سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے کہ پاکستان کسی وقت بھی روس کی سیاسی و عسکری حمایت سے امریکہ کو خطے سے نکال سکتا ہے اور امریکہ کے لئے بلوچستان کی اہمیت اس لئے دوچند تھی کہ ایک تو بلوچستان معدنیات سے لبریز دھرتی ہے اور دوسرے گوادر ایئرپورٹ پر امریکہ کے قبضے سے وہ سوویت یونین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ چین کی تجارتی اور اقتصادی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ زرداری جو مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے اقتدار میں آ کر سب سے زیادہ چین کے دورے کئے تھے۔ امریکہ کو اس کی خبر تھی اور بھارت کو زرداری کے چین کے سرکاری دوروں پر ہمیشہ اعتراض رہا تھا لیکن امریکہ اور بھارت یہ کبھی بھی سوچ نہیں سکتے تھے کہ زرداری کے ہاتھوں پاکستان کے معاشی استحکام کے لئے ایک ایسا کام ہو رہا ہے جس کے مکمل ہونے سے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا خواب دیکھنے والوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گوادر ایئرپورٹ کو سنگاپور سے واپس لے کر اسے چین کے سپرد کر دیا گیا۔ اس پر اعلانیہ احتجاج صرف بھارت کی طرف سے سامنے آیا ہے دراصل یہ بھارت کے مذموم عزائم کے خلاف پاکستان کا بھرپور اقدام ہے۔ہزارہ ٹا¶ن پر واٹر ٹینک کے ذریعے بم دھماکہ کرنے والا پاکستانی تھے لیکن یہ شیعوں کے خلاف سنیوں کی دہشت گردی کی کارروائی نہیں تھی۔ اس کارروائی کے پیچھے وہی ہاتھ کارفرما تھے جنہیں گوادر چین کے حوالے کرنے پر اعتراض تھا۔ ہزارہ ٹا¶ن پر بم دھماکہ کی کارروائی کے بعد روسی سفیر نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں روسی صدر پیوٹن کا کیا خصوصی پیغام دیا تھا۔ یہ درست ہے کہ بھارت ہزارہ ٹا¶ن جیسے سانحات کے لئے پاکستان میں موجود سیاسی اور مذہبی تشدد میں یقین رکھنے والوں کو استعمال کرسکتا ہے لیکن پاکستان کو شیعہ سنی فسادات میں جھونکنے کی شعوری کوشش صرف بھارت کر سکتا ہے یا پھر پاکستان کے نادان وزیرداخلہ رحمان ملک بھارت کی سوچ کو غیرارادی طور پر قوم کے بٹوارے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ رحمان ملک بلکہ پیپلزپارٹی کے مسلم لیگ(ن) کو دہشت گردوں کا حامی قرار دینے والے تمام عناصر غلطی پر ہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے درست اندازہ لگایا ہے کہ کوئٹہ میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ محض فرقہ وارانہ تشدد کی خواہش یا محض شیعہ سنی اختلافات کا شاخسانہ نہیں ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کراچی میں امریکی کمپا¶نڈ کو بھی ملکی سالمیت کے خلاف قرار دیا ہے۔ کوئٹہ میں جو کچھ ہوا ہے یہ پاکستان میں ایران اور سعودی عرب کی مذہبی کشمکش نہیں ہے بلکہ یہ سب گوادر کو چین کے سپرد کرنے کا نتیجہ ہے کہ اس سے چین کو وہ جب خام مال منگواتا ہے تو افریقہ، یورپ اور مشرقی وسطیٰ سے 25ہزار کلومیٹر دور کا سمندری فاصلہ طے کرتا تھا اور گوادر پورٹ سے مذکورہ ممالک کی منڈیوں تک اس کی رسائی آسان تر کر دی ہے۔ سوات میں بھی بھارت اور امریکہ کی یہی گیم تھی کہ وہ گلگت سے گوادر تک کے روٹ کو ڈسٹرب کیاجائے۔ امریکہ کے موجودہ وزیردفاع نے 2011ءمیں بھارت کے حوالے سے جن باتوں کا انکشاف کیا تھا۔ بھارت اب اس کی تردید کر رہا ہے لیکن تاجکستان میں بھارتی اڈے کا قیام اس امر کی کھلی گواہی ہے کہ بھارت وسط ایشیائی ریاستوں سے پاکستان کے تعلقات نہیں چاہتاتھا اور بھارت پاکستان کے لئے پسندیدہ ملک بن کر افغانستان پر اپنے اثرورسوخ اور تاجکستان میں اپنے اڈے سے یہ معاشی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو پسندیدہ ترین ملک بن کر استعمال کر سکے اور افغانستان کی سرزمین اور تاجکستان میں قائم اپنے اڈے سے فائدہ اٹھا کر وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھارتی تجارت کا حجم بڑھا سکے۔ چین و ایران ایک دوسرے کے خلاف مال کے بدلے مال کا پروگرام بنا چکے ہیں۔ وہ دونوں لین دین کے لئے امریکی ڈالر استعمال نہیں کریں گے اور یہی کام ان ممالک کے ساتھ بھارت کے لئے پاکستان کرے گا۔ یہ بھارت اور امریکہ کی بہت بڑی شکست ہے لہٰذا گوادر چین کے سپرد کرنے سے ایک طرف بھارت کو پاکستان پر بے تحاشا غصہ ہے اور دوسری طرف امریکہ بہادر بلوچستان کوالگ کرنے کے منصوبے میں چین اور روس کی مداخلت پر سیخ پا ہے اور یہ امریکہ کی بہت بڑی ناکامی ہے۔

ای پیپر دی نیشن