نہیں معلوم آگے ابھی کیا ہے لیکن یہ معلومات بہت زیادہ دلخراش ہیں کہ الیکشن 2008 کی کوکھ سے جنم لینی والی مفاہمت اور جمہوریت نے، لڑکپن سے شباب تک اور جوانی سے چراغ سحر ہونے تک عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ آغاز میں ق لیگ پورے ملک میں اپوزیشن تھی اور ن لیگ پی پی پی کی ”مفاہمت“! جمہوریت اور سیاست نے انگڑائی لی۔ سیاست اور دوڑ اپنی اپنی شروع ہو گئی۔ ن لیگ نے پی پی پی کو بے وفا قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ پی پی پی عدلیہ سے مخلص نہیں۔ پنجاب میں منشی سے چیف سیکرٹری تک اور کونسلر سے وزارتِ اعلیٰ تک سبھی امور اور فیصلوں پر خادم اعلیٰ کا سکہ چلتا تھا۔ پی پی پی ناراض ہوئی، ن لیگ یہی چاہتی تھی۔ ن لیگ نے پی پی پی کے وزراءکو بے آبرو کر کے نکال دیا اور پی پی پی نے گورنر راج والے اوچھے ہتھکنڈے کو آزما کر دم لیا۔ آخر ق لیگ نے سہارا دیا اور اس نے مرکز میں مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن کی خالی جگہیں ایک اچھے اور ہونہار ”طالب حکومت“ کی طرح پُر کر دیں۔ پورے پانچ سال جمہوریت ایک حقیقت ایک افسانہ بنی رہی۔ پی پی پی مفاہمت کی کمائی کھاتی رہی اور مسلم لیگ ن زرداری ازم مخالفت کا منافع بخش کاروباری کرتی رہی۔ دیگر جماعتوں میں مولانا فضل الرحمن تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہے۔ جماعت اسلامی پہلے دو سال سیاسی اضطراب کا شکار رہی اور آخری دو سال اسی سوچ میں رہی کہ تحریک انصاف کی کروٹ بیٹھنا ہے یا مسلم لیگ (ن) کی طرف۔ پاکستان کی بڑی اور اہم دو مذہبی و سیاسی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ہی نمایاں تھیں گویا مولانا فضل الرحمن کے اونٹ کے منہ کو من پسند زیرہ بھی میسر نہ رہا اور جماعت اسلامی کے اونٹ نے اسی میں وقت ضائع کر دیا کہ کسی کروٹ بیٹھوں! چند ہی دنوں میں نگران حکومت کی آمد آمد ہے۔ اس کے بعد الیکشن کا میدان لگے گا (اگر کوئی سانحہ نہیں ہوتا، تو!) سیاسی جماعتوں نے ایک دفعہ پھر دانت تیز کرنے کے بعد چُھری کانٹے بھی تیز کر لئے ہیں۔ کچھ نہیں بدلا سب ویسا ہی ہے، جیسے 1985 تا 1988 اور پھر 1990 سے 2008 تک کے امیدواران اور الیکشن کا حال تھا۔ آئین کی دفعات 62 اور 63 پہلے کہیں تھیں نہ اگلے منظرنامہ میں ہوں گی، وہی پرانے کھلاڑی میدان میں اتریں گے، اگر کوئی مر گیا ہے تو اس کا بیٹا یا بیٹی یا پھر بھائی میدان میں اترے گا۔ کوئی سائیکل والا شیر پر مہر لگوائے گا، کوئی تیر والا اب سائیکل یا شیر کی بات کرے گا، وہی چہرے، وہی نشان، وہی نعرے اور وہی وعدے۔ کسی کو گمان تھا کہ جانے عمران خان کچھ کر دے لیکن بڑے کھلاڑیوں کے سامنے عمران خان بھی فیل ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمن کی تیزیاں، چوہدری شجاعت حسین کی تجربہ کاریاں، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے کوّے کو سفید ثابت کرنے کی کلاکاریاں اور آصف علی زرداری کی زور داریاں ایک دفعہ پھر کامیاب و کامران ہو گئیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی اور عمران خان دیکھتے ہی رہ جائیں گے (اگر مزید دیر کی!) لوگوں کا خیال تھا کہ، ق لیگ کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے اور پی پی پی مقبولیت سے بہت دور ہو گئی ہے لیکن ایسا بھی کچھ نہیں ہوا۔ کلاکاریاں اور فنکاریاں سیاست کو تراشتی ہیں اور وہی ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے آئینی ترامیم کا راستہ ہموار کیا، مفاہمت کو پروان چڑھایا آخر میں چائنہ کو گوادر میں بٹھا کر امریکہ کی چھاتی پر مونگ دلی، اسی طرح ایران کے ساتھ گیس کا معاہدہ کر کے جرا¿ت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن کرپشن، مہنگائی، ڈالر کے آسمان پر جانے اور پاکستانی کرنسی کی بدحالی کا جواب کون دے گا؟ لوڈشیڈنگ، ریلوے کا زوال، ڈرون حملوں کی انتہا، دہشت گردی روکنے میں ناکامی کو زرداری صاحب کہاں چھپائیں گے؟ وزیراعظم پنجاب میاں شہباز شریف صوبے میں بڑھتے ہوئے رشوت کے بھاﺅ، ہسپتالوں کی بُری حالت، تعلیمی اداروں کی خستہ حالی، سرکاری اداروں کو چھوڑ کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بچے بھیجنے کی مجبوری، پولیس کی من مانیوں، کچہری میں ریڈرز، اہلکاروں اور پٹواریوں کی غنڈہ گردی کا کیا جواب دے سکتے ہیں؟ کیا کوئی وزیر اعلیٰ بتا سکتا ہے کہ وفاق سے ہائر ایجوکیشن کمشن ختم ہونے پر میں نے صوبائی ہائر کمشن بنا کر یونیورسٹیوں کے 22ویں گریڈ کے وی سی حضرات کی عزت سیکرٹریٹ کے غیر معیاری و ناتجربہ کار سیکرٹریوں اور سیکشن افسروں سے محفوظ کر لی ہے؟ ہاں! کوئی وزیر اعلیٰ وہ ہوتی صاحب ہوں، اسلم رئیسانی یا شاہ صاحب اور میاں صاحب، بتا سکتے ہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد انہوں نے ایک میگاواٹ بجلی بنا کر صوبے کو دی؟ چلیں مان لیا کہ وفاقی حکومت نااہل اور ناقابل اعتبار تھی یہ ایک حقیقت ہے مگر یہ بھی ایک افسانہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت سب وزرائے اعلیٰ نے ”سیاست“ کے علاوہ کچھ نہیں کیا سب نے یہی سوچا ملبہ وفاق پر پڑتا ہے سو پڑتا رہے۔ جمہوریت سیاستدانوں کے ڈراموں سے ”ایک حقیقت ایک افسانہ“ بنتی رہی، لوگ مرتے رہے، سسکتے رہے، اُجڑتے رہے۔ جہاں جہاں مہنگائی اور دہشت گردی کو روکنے کا معاملہ آیا سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے، لڑتے رہے۔ جہاں شوگر ملز پر ہاتھ پڑنے لگا سب ن لیگی، ق لیگی اور جیالے ”اتفاق کی برکت“ سمیٹنے لگے۔ جہاں ڈگریوں کی بات آئی اور جہاں سیاستدانوں کی حفاظت کا معاملہ آیا ان کے ہاں حقیقت تھی کہ ”ہم سب ایک ہیں!“ جہاں زرعی ٹیکس کی بات آئی پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے کے وڈیرے اور چوہدری یکجان ہو گئے۔ یہ بھی ایک حقیقت تھی امریکہ کے خلاف یکجان ہوئے نہ ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے خلاف! کاش کوئی ایک اُٹھ جائے، کوئی ایک جماعت، کوئی ایک تنظیم، محب وطن پاکستانیوں کا ایک گروہ جو گلی گلی نگر نگر 62 اور 63 دفعات کی بات کرے، کوچہ و بازار سے کوئی ایسی آواز اذان بن کر اُٹھے اور عدالت سے الیکشن کمشن تک کا ساتھ بن جائے۔ ہر حلقہ میں 62 اور 63 کی بات کرے۔ اسلام سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں، جو اللہ اور رسول کا نام لے کر سیاست کرتی ہیں، وہ شہادت حق کا پہرہ دیں۔ مشن اور مثبت منزل کیلئے چند قدم کا فاصلہ طے کرنا حصول منزل سے کم نہیں۔ شر اور بگاڑ کی منزل تک میلوں کی مسافت لاشوں کو کچل کر آگے بڑھنے کے مترادف ہے، ان لاشوں میں اپنے بڑوں کے علاوہ اصول کی لاشیں بھی کچلی جاتی ہیں۔ شہادت حق کوئی مشکل کام نہیں، جہاد صرف آتش و آہن سے نہیں قلم اور زبان کے علاوہ اچھی نیت سے بھی ممکن ہے۔ جہاد کسی امیدوار کی اہلیت جانچنے سے ووٹ ڈالنے تک ضمیر کی آنکھ کھلی رکھنے سے بھی ہو سکتا ہے --- ہاں، ہاں! ضمیر کی آنکھ کا کھلے رہنا ایک حقیقت ہے لیکن قول و فعل میں تضاد، بغل میں چُھری منہ میں رام رام ایک افسانہ ہے۔ وہ افسانہ جو حقیقت کے خلاف دہشت گردی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اگر کسی حقیقت میں افسانے کی آلودگی آ جائے تو اس سے گفتار کے غازی تو مل سکتے ہیں مگر کردار کے غازی نہیں، حقیقت کا اپنا سچا رنگ اور اصلی چہرہ ہوا کرتا ہے۔ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے۔ ویسے سیاست کے ان تازہ رنگوں نے مارشل لاءکے راستے ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کراچی اور بلوچستان، پھر پورا خیبر پی کے، اسی طرح سکردو سے گلگت اور کوہستان تک کہیں لاءاینڈ آرڈر دکھائی نہیں دیتا۔ تساہل نااہلی سے بڑا جرم ہے۔ لیکن ”ایک حقیقت ایک افسانہ“ میں سے مجرموں کی شناخت اگر ووٹر نہیں کرے گا تو پھر کسی کو الزام دینے کا فائدہ بھی کیا؟
ایک حقیقت ایک افسانہ
Mar 04, 2013