الیکشن کمیشن کی تحلیل کے بارے میں کینڈا پلٹ خود ساختہ شیخ الاسلام حضرت علامہ ڈاکٹرطاہر القادری کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مسترد ہونے سے نہ صرف شیخ الاسلام موصوف کے اونچی ہواﺅں میں اڑنے والے غبارے سے ہوا نکلی ہے بلکہ انتخابات کے ملتوی ہونے یا ان کے تاخیر سے منعقد ہونے کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات اور خدشات میں بھی کسی حد تک کمی آئی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام کینڈا سے لاہور ورود مسعود کے بعد اپنی تقاریر اور بیانات میں جس طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے تھے ان سے گمان گزرتا تھا کہ حضرت شیخ الاسلام کچھ خفیہ قوتوں کے اشارے پر ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جن سے انتخابات کے بروقت انعقاد کی منزل کھوٹی ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں بعض حلقوں کی طرف سے سپریم کورٹ اور فوج کا نام بھی لیا جانے لگا۔ کہ شیخ الاسلام ان کے اشاروں پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔ فوج کے ترجمان نے اگرچہ بہت عرصہ پہلے شیخ الاسلام کی سرگرمیوں اور بیانات سے اظہار لاتعلقی کردیا تھا لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں فوج کا نام ضرور زیر بحث رہا ہے۔ جہاں تک سپریم کورٹ کا تعلق ہے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے بارے میں دائر کردہ درخواست کو مسترد ہی نہیں کیا بلکہ تین روزہ سماعت کے دوران حضرت شیخ الاسلام کے بارے میں ایسے ریمارکس بھی دیے ہیں کہ حضرت کے لئے مستقبل قریب میں ان سے جانبر ہونا آسان نہیں ہوگا۔یہ درست ہے کہ انتخابات کے التواءکے غبارے سے بڑی حد تک ہوا نکل چکی ہے لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں کچھ حلقوں کی طرف سے انتخابات کے التواءیا عبوری سیٹ اپ کے دو تین سال تک جاری رہنے کی باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کا التواءکون چاہتا ہے اور کسے اس کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ عمران خان کا نام بھی اس حوالے سے کبھی کبھی لیا جاتا ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عمران خان کو ایک سال قبل جو مقبولیت حاصل تھی اس میں خاصی کمی آگئی ہے لیکن عمران خان خود یا انکی پارٹی کے لوگ بہر کیف ابھی تک اس زعم کا شکار ہیں کہ وہ مقبولیت کی بلندیوں پر فائز ہیں۔ لہذا انکی طرف سے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کی خواہش رکھنا بظاہر بعید از قیاس ہے۔ تاہم عمران خان کی گو مگو کی پالیسی یا بعض اوقات قومی معاملات و مسائل کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار نہ کرنا کچھ کچھ اس خیال کو تقویت دیتا ہے۔ کہ عمران خان ابھی انتخابات میں شریک ہونے کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر گوارہ کرسکتی ہے یہ سوال خاصا اہم ہے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی ترجیح اپنی پانچ سالہ حکومتی میعاد کو پورا کرنا تھا جس میں وہ تقریباً کامیاب ہوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کا اگلا ہدف مسلم لیگ ن کا راستہ روکنا ہوسکتا ہے۔ اسے تحریک انصاف یا علامہ ڈاکٹر طاہر القادری یا کسی اور سیاسی قوت یا شخصیت سے کوئی خاص خطرہ نہیں ۔ وہ ان شخصیات یا سیاسی طاقتوں کے ذریعے مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک کو کمزور یا محدود کرنے کے راستے کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ اور اب تک وہ اس میں کامیاب بھی رہی ہے۔ لہذا اسکے لئے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر یا ان کے بروقت انعقاد دونوں صورتوں سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ جمعیت علماءاسلام ، ایم کیو ایم، اے این پی، جماعت اسلامی اور دوسری چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں جو پارلیمنٹ سے باہر ہیں وہ یقینا انتخابات کا بروقت انعقاد چاہتی ہیں۔ حالات و واقعات کی اس صورت گری میں بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات اور خدشات بے بنیاد ہیں۔ اور انتخابات کے انعقاد میں اگر کسی طرح کی رخنہ اندازی کا کوئی خطرہ تھا بھی تو وہ دن بدن ختم ہوتا جارہا ہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ میڈیا کے بعض اہم حلقے اور کچھ دیگر باخبر خواتین و حضرات انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور بات جسے ایک میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے بعض نامی گرامی تجزیہ نگار مسلسل زیر بحث لارہے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی غیر جانبداری کے بارے میں شکوک و شہبات کا اظہار ہے۔پھر یہ پراپیگنڈا بھی ختم نہیں ہوپارہا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری کے وقت آئینی تقاضوں اور آئین میں دیے گئے طریقہ کار کو پوری طرح ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ یقینا یہ سارے اعتراضات اور خدشات ایسے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدارانہ انعقاد کے لئے انکا رفع کرنا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن کی متوقع کامیابی بعض حلقوں کے نزدیک قابل قبول نہیں کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو اس کامیابی سے محروم رکھنے کے لئے انتخابات کے التوا ءاور عبوری سیٹ اپ کے دو تین سال تک جاری رکھنے کا آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اب یہ آپشن کیسے استعمال ہوگا اور کون اسے استعمال کرے گا آئین میں اسکے لئے کوئی گنجائش نہیں ۔ چنانچہ اس کے لئے اعلیٰ عدلیہ اور فوج کے نام لیے جاتے ہیں کہ وہ اس آپشن کو بروئے کار لانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ تاہم برسر زمین حقائق اسکی تائید نہیں کرتے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ مسلم لیگ ن کی ایک طرح کی خاموش مفاہمت عرصے سے قائم ہے۔ الیکشن کمیشن سے بھی مسلم لیگ ن کے خوشگوار تعلقات سامنے کی بات ہے۔ ان حالات میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت اور اعلیٰ عسکری قیادت کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی ایک طرح کی سردمہری اور دوری کی کیفیت کو بنیاد بنا کر یہ تھیوری پیش کی جاتی ہے کہ عسکری قیادت میاں نوازشریف کا راستہ روکنے کے لئے انتخابات کے التواءکے آپش کو بروکار لانے کے لئے مختلف مہروں کو آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف فوج کے سیاست میں عمل دخل کے شدید مخالف ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ فوج کی مخالف ہے یا فوج کے چھوٹے بڑے رینکس کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ مسلم لیگ ن کے بارے میں پسندیدگی کے جذبات نہیں رکھتے ہیں درست بات نہیں ہوگی۔ اس طرح یہ مفروضہ کہ فوجی قیادت میاں نوازشریف کا راستہ روکنے کے لئے انتخابات کے التواءکے آپشن کو استعمال کرنا چاہتی ہے قرین قیاس نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا کہ اسٹیبلشمنٹ بعض سیاسی مہروں کی سرپرستی کرکے مسلم لیگ ن کی مقبولیت یا انتخابات میں متوقع کامیابی کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہ دینے میں دلچسپی ضرور رکھتی ہے۔حالیہ برسوں میں سیاسی میدان میں جو پیش رفت ہوتی رہی ہے وہ اسکا ایک بین ثبوت ہے ۔ پہلے عمران خان کو آگے لایا گیا آئی ایس آئی کے سابقہ چیف لیفٹینٹ جنرل احمد شجاع پاشا کے بارے میں سمجھاجاتا تھاکہ وہ عمران خان کے حامی ہیں چنانچہ وہ سیاسی قوتوں کو گھیر گھار کر عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل کرانے کے لئے کوشاں رہے ۔ بعد میں عمران خان بوجوہ پہلی ترجیح نہ رہ سکے تو پھر حضرت شیخ الاسلام کو آگے لایا گیا۔ یہ مہرہ بھی پٹ گیا ہے تومسلم لیگ ن کے خلاف پرواسٹیبلشمنٹ سیاسی قوتوں کا ایک وسیع تر اتحاد جس میں پیپلز پارٹی بظاہر شامل نہ ہو لیکن در پردہ اسے پیپلز پارٹی کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہو ایک اہم ترجیح ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کا باہم مل کر آئندہ انتخابات میں حصہ لینا اور پنجاب میں بطور خاص مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے مقابلے میں متفقہ امیدوار کھڑے کرنا اسی سلسلے کی کڑیاں گردانی جاسکتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں بعض نادیدہ قوتوں کے تعاون سے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی باقیات جو مشرف کے طویل دور حکمرانی میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں اور مشرف کی ہم خیال اور اسکی تائید و حمایت کے نعرے بلند کرنے والی قوتوں کے درمیان وسیع تر اتحاد قائم ہوسکتا ہے۔ جس میں چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ ق ، حضرت شیخ الاسلام کی پاکستان عوامی تحریک ، عمران خان کی تحریک انصاف اور جنرل ریٹارئرڈ مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ اور جناب الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور دیگر کئی چھوٹے بڑے سیاسی دھڑے شامل ہوسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بظاہر اس اتحاد کا حصہ نہ بن کر بھی اس کے ساتھ تعاون کے راستے پر گامزن رہ سکتی ہے۔ سیاسی قوتوں کے اس اتحاد سے مسلم لیگ ن کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کے امکانات محدود کیے جاسکتے ہیں۔ انتخابات کے التواءکا آپشن شائد اب قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے لیکن مسلم لیگ ن کا راستہ روکنے کے لئے دیگر آپشنز آخری وقت تک استعمال میں لائے جاتے رہیں گے۔ مسلم لیگ ن کو جان لینا چاہئے کہ صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی اپنے پھن پھلائے موجود ہے اور اسکے اثرات دور دور تک پہنچ سکتے ہیں۔
انتخابات کا التواء....خدشات میں کمی!
Mar 04, 2013