یحیٰی نے قومی اسمبلی کا اجلاس موخر کیا تو بھٹو نے کہا شکر ہے خدا نے پاکستان بچا لیا

Mar 04, 2013

اسلام آباد (محمد نواز رضا) 1971ءمیں جنرل یحیٰی کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس موخر کرنے پر بھٹو نے ”شکر ہے خدا نے پاکستان کو بچا لیا“ کے الفاظ کہے مگر دراصل اس فیصلے کے باعث مشرقی پاکستان میں فسادات پھوٹ پڑے اور حالات قابو سے باہر ہوتے چلے گئے۔ روس اور امریکہ دونوں پاکستان توڑنے کی اس سازش کا حصہ تھے تاہم روس جنگ اور امریکہ سیاست سے مطلوبہ مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس وقت امریکی فوج کے چیف آف دی جوائنٹ چیفس جنرل میکسویل بی ٹیلر نے امریکی سینٹ میں بیان دیا کہ امریکہ اور سوویت یونین ایک ہی مشن پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت سے خراب تعلقات کے باوجود سابق صدر نکسن نے ساتویں بحری بیڑے کو بحرہند کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا جبکہ پاکستان اس غلط فہمی میں رہا کہ یہ بیڑہ ان کی مدد کو آئے گا۔ جرمنی، اٹلی، رنگون اور دیگر اہم ممالک میں سابق سفیر، سابق ممبر قومی اسمبلی اور سابق صدر جنرل ضیاءالحق کے قریبی ساتھی میاں عبدالوحید نے ان حقائق کو اپنی خود نوشت ”Before Memory Fades (یادداشت، دھندلا جانے سے قبل)“ میں قلمبند کیا ہے۔ میاں عبدالوحید نے ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق دونوں کے ساتھ کام کیا، وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور سقوط ڈھاکہ کے وقت ہونے والے اہم واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ کتاب میں انہوں نے اہم حقیقتوں کا انکشاف کیا ہے۔ 1971ءکے جنگی قیدیوں کی بھارت سے واپسی کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ یہ انتہائی مشکل کام تھا۔ جیت کے نشے میں دھت بھارت کو قائل کرنا قریباً ناممکن تھا۔ اس وقت کے وزیر مملکت برائے دفاع عزیز احمد کو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ وہ بھارت کو قیدیوں کی آزادی کے لئے جنگ کی دھمکی دیں اور جنگ کے خوف سے بھارتی قیادت نے معاملہ پر سنجیدہ گفتگو شروع کی تھی۔ 1974ءمیں بھٹو کے دورہ بنگلہ دیش کے موقع پر شیخ مجیب الرحمن کی طرف سے جہازوں، ریل گاڑیوں اور دیگر سامان کی تقسیم پر بھٹو نے صاف انکار کر دیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے مشورہ پر بھٹو نے اداروں کی نیشنلائزیشن کا سلسلہ شروع کیا جس نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا اور ہم آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ بٹالہ انجینئرنگ ایک ایسا دارہ تھا جہاں چین سے انجینئر تربیت کے لئے آتے تھے لیکن یہ ادارہ ڈاکٹر مبشر حسن کی ذاتی رنجش کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انہوں نے بھٹو کے 1975ءکے دورہ فرانس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو نے انتہائی دانشمندی سے فرانسیسی قیادت کو اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ پاکستان میں نیوکلیئر فیول ری پراسیسنگ پلانٹ نصب کرے لیکن امریکہ کی بے جا دخل ندازی سے معاہدہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اور بیعانہ کی رقم واپس نہ ملنے پر پاکستان کو کئی ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ انہوں نے بین السطور کے وفاقی سیکرٹری اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم کی رات گئے پٹائی کے واقعہ سے بھی پردہ اٹھایا۔ پٹائی دراصل بھٹو کے خلاف غیر اخلاقی جملے کہنے پر خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے کی تھی۔ انہوں نے نیوکلیئر پروگرام سے متعلق بھی اہم حقائق اپنی خود نوشت میں رقم کئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ستمبر 1974ءمیں انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر کا خط موصول ہوا جس میں انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان کے پاس بنا بنایا ایٹم یا کوئی انتہائی تباہ کن ہتھیار موجود ہے۔ میں نے اس خط کی سمری سیکرٹری خارجہ کو بھیجی جس کے نتیجہ میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا تاہم ضیاءالحق نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ضیاءالحق کو گالف کھیلنے کا بہت شوق تھا جس دن انہوں نے جونیجو حکومت کا خاتمہ کیا اس روز میں نے ان کے ساتھ راولپنڈی گالف کلب میں سات ہول کھیلے۔ انہوں نے اپنی سفارتی اور سیاسی زندگی سے متعلق اہم اور دلچسپ باتیں رقم کی ہیں۔ تاہم اہم سیاسی اور دفتر خارجہ سے متعلق کئی اہم واقعات پر لب کشائی نہیں کی۔ 

مزیدخبریں