فصیح اقبال قومی یکجہتی کیلئے ہمیشہ مصروف رہے

سید فصیح اقبال، ایک محبِ وطن پاکستانی کی رحلت
معروف صحافی، دانشور، اے پی این ایس اور سی پی این ای کے سابق صدر سابق وفاقی وزیر و سینٹر بلوچستان ٹائمز اور روزنامہ ’’زمانہ‘‘ کے ایڈیٹر انچیف، پاک چائنہ فرینڈ لیگ ایسوسی ایشن کے بانی صدر اور محبِ وطن پاکستانی فصیح اقبال ۔   1934ء کو الٰہ آباد (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ انکے والد سید مظہر رشید تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے اور انہیں قائداعظمؒ کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے لاہور میں مارچ 1940ء کی قرارداد کے جلسے میں بھی شرکت کی۔ وہ قیام پاکستان سے قبل ہی کراچی آ گئے تھے۔ 1950ء میں فصیح اقبال کوئٹہ منتقل ہو گئے۔ وہاں سے انہوں نے ہفت روزہ ’’زمانہ‘‘ کا اجرا کیا جو بعد میں روزنامہ بنا دیا گیا۔ 1976ء میں ’’بلوچستان ٹائمز‘‘ کا اجراء کر کے بلوچستان میں انگریزی صحافت کی بنیاد رکھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1960ء میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے کوئٹہ میں انکے دفتر کا دورہ کیا جبکہ 1976ء میں بطور وزیراعظم ’’بلوچستان ٹائمز‘‘ کا افتتاح کیا۔سید فصیح اقبال کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ انہوں نے کئی ادارے قائم کیے۔ وہ بلوچستان کے عوام کی بھرپور نمائندگی اور ہر ممکن خدمت کرتے رہے۔ وہ کئی مرتبہ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ قومی اخبارات کے ساتھ ساتھ مقامی اخبارات کی بقا اور استحکام کیلئے بھی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ صاف دل کے مالک، جرأت مند انسان تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ مجلسِ شوریٰ کے رکن بنے۔ دو بار سینٹر منتخب ہوئے۔ 9 سال تک سینٹ کی انفارمیشن کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ وہ کئی اداروں کے سربراہ تھے۔ 1973ء سے وہ پاک چائنہ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین تھے۔ بلوچستان کی تین یونیورسٹیوں کی سینٹ سینڈیکیٹ کے رکن رہے۔ انہوں نے بلوچستان کے عوام کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے مخلصانہ کاوشیں کیں۔ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں بھی فعال کردار ادا کرتے تھے۔ ہر سال بلوچستان کے طلباء و طالبات کو بین الصوبائی دوروں پر بھجواتے۔ ایک مرتبہ ہم نے ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے زیراہتمام حمید نظامی ہال میں ان طلبا و طالبات کے اعزاز میں استقبالیہ دیا تو فصیح اقبال بھی تشریف لائے اور اس پروگرام کو بہت پسند کیا۔ انہوں نے ٹرسٹ بنا کر اپنی کوٹھی ٹرسٹ کے نام کردی۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی البتہ اپنے عزیز و اقارب کو اپنی جائیداد میں سے حصہ دیا۔ میری فصیح اقبال سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، فون پر بھی ان سے رابطہ رہتا۔ وہ نہایت شفیق انسان تھے۔ ’’پھول‘‘ کیلئے ان سے انٹرویو کی بات کی تو کہنے لگے کہ اب لاہور آیا تو تفصیلی ملاقات ہوگی۔ تحریک پاکستان کے گولڈ میڈلسٹ کارکن اور بلوچستان میں ڈائریکٹر تعلیمات و دیگر عہدوں پر تعینات رہنے والے ڈاکٹر انعام الحق کوثر جو بلوچستان کے حالات اور علالت کی وجہ سے لاہور رہائش پذیر ہو چکے ہیں ان سے ہمیشہ رابطے میں رہے۔ جب بھی لاہور آتے ان سے ملاقات کیلئے ضرور جاتے اور ان کیلئے خشک میوہ جات وغیرہ لے جاتے۔ بلوچستان کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے کچھ کتابچے کافی عرصے سے شائع نہیں ہو رہے تھے۔ انہوں نے خود شائع کروائے اور چند روز قبل ہی ڈاکٹر صاحب کو فون پر کہا کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی کانفرنس میں آرہا ہوں آپ کیلئے اور شعیب مرزا کیلئے وہ کتابچے لاؤں گا لیکن قدرت نے ان کو مہلت نہ دی۔ وہ ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی کئی کتابیں خود خرید کر تقسیم کرتے رہے۔ ولی مظہر ایڈووکیٹ کے بارے میں ان کی کتاب شائع ہوئی تو فصیح اقبال نے فوراً پچاس کتابیں خرید لیں۔سید فصیح اقبال کو ان کی اعلیٰ خدمات پر کئی اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا گیا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز، اے پی این ایس کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، سعودی حکومت کی طرف سے ایمننٹ جرنلسٹ ایوارڈ، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے تحریک پاکستان گولڈ میڈل ایوارڈ جبکہ حال ہی میں انکی خدمات کے اعتراف میں بلوچستان یونیورسٹی آف آئی ٹی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ ان کے قریبی دوست تاج محمد نعیم نے ان کی زندگی اور خدمات کے حوالے سے ’’سید فصیح اقبال ایک لیجنڈ، ایک عہد ساز شخصیت‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھ کران کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی ہے جس میں ان کی یادگار تصاویر بھی شامل ہیں۔ جنوری میں ان کے پتے کا آپریشن ہوا تھا۔ 15 فروری کو اسلام آباد میں پریس کونسل کے اجلاس کے دوران معمولی تکلیف ہوئی۔ اسلام آباد سے وہ اے پی این ایس کے اجلاس میں شرکت کیلئے کراچی گئے۔ ان کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا لیکن وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ کراچی میں نماز جنازہ ادا کی گئی جبکہ انکی وصیت کے مطابق ان کی تدفین کوئٹہ میں کی گئی۔ صدر، وزیراعظم سمیت ملک کی اہم شخصیات نے انکی وفات پر اظہارِ تعزیت کیا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...