آج کے کالم میں میں محکمہ صحت کے ان چھوٹے بڑے ناخداؤں کا سیاپا کرنا چاہتا ہوں جن کی آشیرباد اور غفلت سے دو نمبر اور ایکسپائری ڈیٹس ادویات مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں۔ میں قانون کے ان محافظوں کی لاپرواہیوں پر ماتم کرنا چاہتا ہوں جو چند ٹکوں کی خاطر آنکھیں اور کان بند کئے ہوئے ہیں۔ قانون مجھے اجازت دے تو دو نمبر اور ایکسپاٹری ڈیٹس دواؤں کا مکروہ دھندا کرنیوالوں کے منہ نوچ لوں‘ ان کی گردنوں میں پٹے ڈال کر شہر کے گلی کوچوں میں گھسیٹوں‘ انکے جسموں پر شہد اور دہی لگا کر ان پر خونخواور کتے چھوڑ دوں اور ان سے زیادہ برا حال قانون کے ان محافظوں کا کروں جنہوں نے چپ سادھ رکھی ہے اور معصوم لوگوں میں موت بانٹنے والا مافیا دندنا رہا ہے۔ قابل سزا ہیں وہ سرکاری اہلکار اور افسر جن کی نگرانی میں مردہ و بیمار جانوروں کا گوشت لوگوں کو کھلایا جا رہا ہے۔ ناقابل معافی ہیں محکمہ خوراک کے وہ ذمہ داران جو جان بوجھ کر بے خبر بنے ہوئے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ دودھ کے نام پر معصوم شہریوں کو کیا پلایا جا رہا ہے۔ پھر ہم نت نئی جنم لینے والی بیماریوں کا رونا روتے ہوئے نہیں تھکتے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ نئی نئی بیماریاں جن کا کبھی نام تک نہیں سنا تھا کیوں فروغ پا رہی ہیں۔ یہ سب کیا دھرا اس خوراک کا ہے جو ہمیں کھلائی جا رہی ہے ہم کیمیکلز سے آلودہ خوراک کھا رہے ہیں بلکہ ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے زہر کھانے پر اور ہم مجبور و ناچار خوراک اور دوائی دونوں کے نام پر زہر کھا رہے ہیں اور اس لب کچھ کے ذمہ دار ہمارے حکمران خاص کر بے ضمیر قانون کے محافظ ہیں۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دو نمبر اور ایکسپاٹری ڈیٹس میڈیسنز کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتوں کے بعد امید کی جانے لگی تھی کہ محکمہ صحت کے چھوٹے بڑے ناخداؤں کے ضمیر جاگ گئے ہوں گے اور انہوں نے دو نمبر دوائیوں کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھا لئے ہونگے اور دو نمبر دوائیوں کا دھندا کرنیوالے مافیا کیلئے معقول اور سخت ترین سزائیں مقرر کر لی ہوں گی مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارا محکمہ صحت آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں دو نمبر دوائیوں کے سکینڈل اور سینکڑوں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت سے پہلے کھڑا ہوا تھا۔ سرکاری ہسپتالوں میں آج بھی متبادل دوائیں دی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر لکھتا کوئی دوائی ہے مریض کو ملتی کوئی دوسری دوائی ہے اور یہ مکروہ کھیل فری علاج کے نام پر مسلسل کھیلا جا رہا ہے۔ کون جانے کہ مریضوں کو ملنے والی دوائیاں انڈر ڈیٹس بھی ہوتی ہیں یا نہیں۔کہتے ہیں بلکہ جس نے بھی کہا سچ کہا ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں فری علاج کے نام پر اگر دو نمبری ہوئی تو پرائیویٹ ہسپتال بھلا کیونکر پیچھے رہ سکتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پرائیویٹ ہسپتال عام آدمی کی پہنچ سے ہی باہر ہیں ان پرائیویٹ ہسپتالوں میں انسانوں کو جس طرح اور جس بے دردی کے ساتھ مالی طور پر ذبح کیا جاتا ہے اس کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مریض کا پہلا قدم ہسپتال میں پڑتے ہی بلنگ مشین چلنا شروع ہو جاتی ہے اور اس وقت تک چلتی رہتی ہے جب تک مریض چلا نہیں اٹھتا کہ بس کرو بہت ہو گیا۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کی اکثریت بھی دو نمبر لائن پر رواں دواں ہو چکی ہے اور سرکار غافل ہے یا جان بوجھ کر لاعلم بنی ہوئی ہے۔