مِرزا غالب نے کہا تھا....
”قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گِری ہے جِس پہ کل بجلی وہ میرا آشِیاں کیوں ہو؟“
مِرزا صاحب کے دَور میں”واپڈا اور اُس کی بجلی کاٹ ٹِیمیں“ نہیں تھیں۔ انہوں نے تو آسمانی بجلی کی بات کی تھی۔
"Khawaja Dental!"
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ مُتحدہ عرب امارات سے لاہور آنے والے گلف ائرویز کے طیّارے پر آسمانی بجلی گِری لیکن طیّارے میں سوار دو سو سے زیادہ مسافر محفوظ رہے۔ آسمانی بجلی کی طرح آسمانی آگ، آسمانی بلا، آسمانی آفت بھی آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے لیکن بجلی کا بِل بہت زیادہ آجائے تو "Electricity" بھی بلا اور آفت محسوس ہوتی ہے۔ قدرتی موت تو آتی ہی ہے لیکن بے روزگاری، مہنگائی، اشیائے خورونوش میں ملاوٹ اور واپڈا اور اُس کے کارندے بھی موت کے فرشتے ہیں۔ خبر ہے کہ”سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہُوئے وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی جناب یونس ڈھاگہ نے کہا کہ ”بلوچستان کے 80 فی صد صارفین بجلی کے بِل ادا نہیں کرتے اور ہم بجلی چوری اور"Line Loss" دوسرے صارفین پر ڈال دیتے ہیں۔ (یعنی اُن صارفین پر جو بجلی چوری نہیں کرتے)۔
جناب یونس ڈھاگہ نے کہا کہ”ہم بجلی چوروں کے نام نہیں بتا سکتے؟“۔ (وجہ یہ کہ ہر سرکاری ملازم کو اپنی نوکری پیاری ہوتی ہے) لیکن وفاقی وزیرِ پانی و بجلی خواجہ آصف اور وزیرِ مملکت جناب عابدشیرعلی کی تو نوکریاں پکی ہیں۔ جناب عابد شیر علی تو عبادت گزار شیر ہیں لیکن خواجہ آصف بھی بجلی چوروں پر دانت پیسنے کے سِوا کچھ نہیں کرتے۔ مَیں تو خیر علّامہ اقبالؒ کی جنم بھومی کے حوالے سے سیالکوٹی ہونے کے ناطے خواجہ صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن کل کلاں بجلی کے کسی دوسرے صارف نے خواجہ صاحب کو"Khawaja Dental" کہہ دِیا تو مجھے بہت دُکھ ہو گا۔
”پھر مرسُوں ¾ مرسُوں کا نعرہ ؟“
”مرسُوں، مرسُوں سِندھ نہ ڈیسُوں“ کے نعرے کے بعد چیئرمین بلاول بھٹو نے ”مرسُوں مرسُوں جناح کا پاکستان نہ ڈیسُوں“ کا اعلان کر دِیا ہے۔ بلاول جی نے قائدِاعظم کا پاکستان کیوں نہیں کہا؟ اُس کی ایک تاریخ ہے۔ پاکستان کے پہلے مُنتخب صدرسکندر مِرزا نے 7 اکتوبر 1958ءکو مارشل لاءنافذ کرکے بلاول جی کے نانا جی جنابِ بھٹو کو بھی مارشل لائی کابِینہ میں شامل کر لِیا تھا تو جنابِ بھٹو نے صدرسکندر مِرزا کے نام ایک خط میں لِکھا کہ”جنابِ صدر! آپ قائدِاعظم سے بھی بڑے لِیڈر ہیں“۔ بلاول جی کے دادا جی جناب حاکم علی زرداری کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ”مولانا حسرت موہانی قائدِاعظم سے بڑے لِیڈر تھے“۔
قائدِاعظم کو ”مِسٹر جناح یا جناح صاحب“ کہنا اُن مذہبی لِیڈروں کا وطِیرہ ہے جنہوں نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ بلاول جی کے نانا نے”پاکستان نہ ڈیسُوں“کہا تھا لیکن اُن پر جنرل یحییٰ خان کے ساتھ مِل کر آدھا پاکستان دینے کا الزام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چیئرمین بلاول نے کسی نہ کسی بہانے اپنا تکیہ کلام ”مرسُوں مرسُوں“ بنا لِیا ہے؟۔ جنابِ زرداری بھی اپنے لاڈلے کو منع نہیں کرتے تین دِن پہلے جنہوں نے کہا تھا کہ ”بلاول میرا ایک ہی بیٹا ہے اور ہم دونوں میں اختلافات کیسے ہو سکتے ہیں“۔
مولانا فضل اُلرحمن کی ”دعوتِ سمرقند!“
جماعتِ اسلامی کے ایک مرکزی رہنما جناب امِیر اُلعظیم 2002 ءکے عام انتخابات سے قبل مجھے اسلام آباد سے پشاور، چارسدّہ اور نوشہرہ میں مُتحدہ مجلس عمل کے عام جلسے دکھانے کے لئے لے گئے تھے۔ مَیں پشاور میں مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور مولانا فضل اُلرحمن کے ظہرانے میں بھی شریک ہُوا تو مَیں نے چشم دِید گواہ کی حیثیت سے مولانا فضل اُلرحمن کو خُوش خوراکی میں پہلے نمبر پر پایا۔
تین دِن پہلے سابق صدر زرداری اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد میں مولانا فضل اُلرحمن کے گھر مدعُو تھے تو ٹی وی پر مولانا کا سجا ہُوا دستر خوان بار بار دکھایا گیا اور ٹی وی کے رپورٹروں نے سوِیٹ ڈِشِز کے علاوہ مولانا کے دستر خوان پر سجے ہُوئے کھانوں کے جو نام گنوائے وہ یہ تھے۔ بار بی کیو، فرائی مچھلی، نمکِین سجّی، کابلی پلاﺅ، بٹیر، چِکن منچُورین، ہاٹ اینڈ سارسُوپ، سفید اُبلے چاول، دال مونگ، دال ماش اور سالم بکرا بھی تھا۔ میرا خیال ہے کہ مولانا صاحب نے سالم بکرا اِس لئے روسٹ کرایا ہوگا کہ آج کل بعض قصابوں کی دکانوں پر بکرے کے گوشت کے بہانے گدھے کا گوشت فروخت کِیا جاتا ہے۔ غریب غُرباءنے تو گوشت کھانا ہی چھوڑ دِیا ہے۔ چنانچہ مولانا فضل اُلرحمن جیسے خُوشحال لوگ ہی مہمانوں کی خِدمت میں روسٹ سالم بکرا پیش کر سکتے ہیں۔
جب کوئی میزبان، اپنے مہمانوں کو اپنے معمول کا سادہ کھانا کھِلاتا ہے تو اُس دعوت کو ”دعوتِ شیراز“ کہتے ہیں اور جِس دعوت میں انواع و اقسام کے کھانے ہوں اُسے ”دعوتِ سمرقند“ ممکن ہے پرانے زمانے میں اہلِ سمر قند اہل شیراز کی نِسبت زیادہ خُوشحال ہوں؟۔گذشتہ دِنوں ”بابائے امن“ (گلاسگو کے ملک غلام ربّانی) اور مَیں تحریکِ پاکستان کے ممتاز کارکن چودھری ظفر اللہ خان (گولڈ میڈلِسٹ) سے ملاقات کے لئے گئے تو ایک طویل نشست میں چودھری صاحب نے ہمیں اُردُو اور فارسی کے کئی اشعار بھی سُنائے۔ اُن میں فارسی کے نامور شاعر جناب حافظ شیرازی کا یہ شعر بھی تھا....
”اگر آں تُرکِ شیرازی بدست آرد دِلِ مارا
بخالِ ہِندوَش بخشم سمر قندوبُخارا را“
یعنی اگر وہ شیرازی معشوق میرے دِل کو تھام لے تو مَیں اُس کی گال کے دِل فریب سیاہ تِل پر سمر قندا ور بخارا نچھاور کر دُوں“۔ اگرچہ آدھی دُنیا کے فاتح امیر تیمور اور حافظ شیرازی کا دَور مختلف ہے لیکن بعض خُوش ذَوق اصحاب نے ایک کہانی گھڑ رکھی ہے کہ”امیر تیمور نے حافظ شیرازی کو طلب کِیا اور ڈانٹا کہ ”مَیں نے بڑی جنگ وجدل کے بعد سمرقند اور بخارا کو فتح کِیا اور تُم اسے شیرازی معشُوق کے گال کے ایک سیاہ تِل پر نچھاور کر رہے ہو“۔ کہانی کے مطابق ”جناب حافظ شیرازی نے ہاتھ باندھ کر کہا ”اے فاتحِ عالم! اپنی اِن غلط بخشیوں کی وجہ سے ہی مَیں مفلُوک اُلحال ہو گیا ہُوں“۔
مولانا فضل اُلرحمن نے اپنے بڑے گھر میں سابق صدرِ پاکستان جناب آصف زرداری اور اُن کے ساتھیوں کے اعزاز میں "Grand Lunch" کا اہتمام کرکے پڑھے لِکھے لوگوں کو مُغل بادشاہوں کے دسترخوان کی یاد دلا دی ہے۔ بادشاہ کے لئے ہر روز پچاسوں باورچی سینکڑوں کھانے تیار کرتے تھے۔ بادشاہ اُن کھانوں میں سے دو چار نوالے کھاتا اور باقی ماندہ کو محض سونگھ کر خُوش ہو جاتا۔ جناب آصف زرداری نے بھی ایسا کِیا اور مولانا فضل اُلرحمن اور اُن کی جمعیت عُلماءاسلام (ف) کو خُوش کر دِیا۔ مولانا فضل اُلرحمن کا یہ دسترخوان دیکھنے اور ٹیلی ویژن پر سونگھنے سے مجھے”امن کی آشا دیوی“ کے پُجاری نیوز چینل کی طرف سے ہر سال ماہ ِ رمضان میں روزہ داروں کے لئے سجائی اور دکھائی جانے والی ”دعوتِ سمرقند“ یاد آ گئی جِس میں ”اشکوں کی برسات والے مُلّا تِین پیازہ“ کی یاد آ گئی جو مختلف قِسم کے کرتب دِکھا کر ”فضائلِ رمضان“ بیان کرتا ہے لیکن مولانا فضل اُلرحمن نے تو اپنے پلّے سے ”دعوتِ سمرقند“ کا بندوبست کِیا تھا۔ ”ایوانِ بالا میں جمہوریت کی بالادست“ کے لئے!۔
مولانا فضل اُلرحمن کی....”دعوتِ سمرقند!“
Mar 04, 2015