’’ پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ‘‘

Mar 04, 2016

کرنل ((ر))زیڈ آئی فرخ

وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری کے درمیان چھٹے وزارتی سطح کے سٹریٹیجک ڈائیلاگ 29 فروری 2016کو واشنگٹن میں ہوئے۔انکا مقصد پچھلے سال جنوری میں وزارتی سطح کے ڈائیلاگ اور اکتوبر 2015میں وزیراعظم کے دورئہ واشنگٹن کے دوران کئے گئے فیصلوں پر پیش رفت کو آئندہ کے لائحہ عمل کیلئے ترتیب دینا تھا۔امریکہ کے مطابق ان کیلئے ایک مضبوط، خوشحال اور جمہوری پاکستان ضروری ہے تاکہ مشترکہ اور پائیدار مفادات کو آگے بڑھایا جا سکے۔یہ مشترکہ دلچسپی انہیں پاکستان کی بہتر ہوتی ہوئی معیشت، باہمی تجارت اور سرمایہ کاری، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی عزت، علاقائی توازن ، تشدد انتہا پسندی اور دہشتگردی کیخلاف جنگ وغیرہ میں انکے ساتھ شانہ بشانہ سرگرم عمل رہنے میں نظر آتی ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے بھی اتفاق رہا۔دونوں نے پہلے سے بنائے گئے چھ ورکنگ گروپس (1)انرجی (2)سکیورٹی سٹریٹیجک سٹیبلیٹی اینڈ نان پرولفریشن (3)دی ڈیفنس کنسَلٹیٹو گروپ (4)لاء انفورسمنٹ اینڈ کاؤنٹر ٹیررزم (5)اکانومی اینڈ فنانس (6)ایجوکیشن ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا۔چونکہ ہمارے امریکہ کے ساتھ مختلف جیہات اور بہت بڑے سکوپ کے مذاکرات چل رہے ہیں لہٰذا دونوں طرف سے کوشش کی جاتی ہے کہ بے شک فیصلہ کچھ نہ ہو پائے وقتی طور پر کئی نا قابل قبول شرائط بھی شامل کرلی جائیں مگر یہ سلسلہ بحال رکھا جائے۔اس بار زیر بحث آنیوالے معاملات میں سات موضوعات پر اعلامیہ جاری کیا گیا۔
1۔ تجارت کا پھیلانا اور معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنا۔ اس پر جان کیری نے ہمارے اکنامک ریفارم ایجنڈے پر لئے گئے اقدامات کو سراہا جس کو عالمی بینک، زرعی ترقیاتی بینک اور IMFنے بھی سپورٹ کیا ہے۔ دونوں نے تجارت کے فروغ اور سرمایہ کاری کو بہتر کرنے کیلئے اسی نقطے کو رواںماہ کے اختتام پر نواز اور اوباما کے مابین متوقع ملاقات میں خصوصی توجہ کیلئے منتخب کیا ہے ۔ خواتین کی معاشی ترقی کیلئے مشترکہ کوششیں بھی کی جائیں گی۔
2۔ ایجوکیشن سائنس اور ٹیکنالوجی۔ دونوںنے اسلام آباد میں قائم متعلقہ ورکنگ گروپ کی کارکردگی کو سراہا۔ یہ تجویز کیا گیا کہ پاکستا ن وژن 2025کیمطابق نئے پراجیکٹ "US Pak Knowledge Corridor" کے ذریعے پاکستان کے تعلیمی سسٹم کو مضبوط کیا جائیگا جو آگے چل کر معاشی ترقی اور خوشحالی کا سبب بن سکے گا۔نواز شریف کی کمٹمنٹ کیمطابق 2018ء تک تعلیمی بجٹ دوگنا یعنی قومی پیداوار کا 2فیصد سے بڑھا کر 4فیصد کر دیا جائیگا۔ قومی اخراجات پرفی الوقت 125اور 2025ء تک 1000پاکستانی نوجوان امریکن یونیوسٹیوں سے PHDکرینگے۔ جس کی امریکہ نے تعریف کی ہے۔
3۔انرجی پر تعاون۔امریکہ کی امداد سے 1750 MWبجلی پاکستان کے قومی گرڈ میں شامل ہوچکی ہے جبکہ انکے پلان کیمطابق 2020ء تک اسے 3000 MWتک بڑھادیا جائیگا۔
4۔سٹریٹیجک توازن کو بہتر بنانا۔دونوں اطراف نے اعادہ کیا کہ ایٹمی ہتھیار خصوصاً بڑے تباہ کن ہتھیار ( کے پھیلاؤکو روکا جائیگا۔سکیورٹی ، سٹریٹیجک سٹیبیلیٹی اور نان پرولفریشن (SSS&NP) ورکنگ گروپ کی کارکردگی کی تعریف کی گئی۔مزید بحث کیلئے امریکہ نیوکلئیر سکیورٹی سمٹ میں نواز شریف کی شمولیت کے منتظر ہیں جبکہ اس گروپ کی آئندہ میٹنگ امسال 16مئی کو ہوگی۔
5۔ لاء انفورسمنٹ اور کاؤنٹر ٹیررزم۔ امریکہ کی طرف سے اس سلسلے میں تعاون جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا اور پاکستان کی بے حد قربانیوں کی تعریف کی گئی۔یہ متفقہ طور پر طے پایا کہ کسی بھی ملک کی زمین کسی دوسرے کیخلاف استعمال نہیں کرنے دی جائیگی۔جن تنظیموں اور افراد کے خلاف UNOنے نشاندہی کی ہے انکے خلاف، بشمول القاعدہ، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور ان سے متعلقہ لوگوں کے ، ایکشن لیا جائیگا۔ افغانستان سے انٹیلی جنس کے تبادلے اور IED's (بارودی سرنگوں) کیخلاف اقدامات میں امریکہ مدد کریگا۔
6۔ڈیفنس اور سکیورٹی میں تعاون۔دونوں اطراف سے پاک امریکہ ڈیفنس کو آپریشن ، جس سے کاؤنٹر ٹیررزم اور علاقائی بحالی میں مدد ملے، کی اہمیت کو تسلیم کیاگیا۔امریکہ نے فاٹا میں جاری اپریشن کی مدد جاری رکھنے کا اعادہ کیاہے۔اسکے علاوہ امریکہ نے لوکل مہاجرین کی آباکاری ،سکول ، ہسپتال اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں تعاون کا وعدہ بھی کیا ہے۔پاکستان نے یقین دلایا کہ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق کاروائی جاری رہے گی۔پاکستان سے طالبان وغیرہ کاروائیاں نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی کسی داعش ISIL/کو یہاں قدم رکھنے دئیے جائیں گے۔
7۔ریجنل کوآپریشن۔امریکہ نے 2015میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے انعقاد اور چارملکی کانفرنس (QCG)میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔پاکستان کا افغانی لیڈر شپ اور انکی طرف سے طالبان سے مذاکرات کی خواہش پر سہولیات بہم پہنچانے کو بھی امریکہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور امید کرتا ہے کہ اب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ڈائریکٹ مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں خون گرنا بند ہو جائیگا اور انکی ملکی سالمیت اور خود مختاری کو قائم رکھا جا سکے گا۔دونوں طرف سے علاقے میں تمام قوموں سے عدم تشدد اور تناؤکم کرنے کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔نواز شریف صاحب کی پٹھانکوٹ واقعہ پر ممکن حد تک تعاون کی پالیسی اور مولانا مسعود اظہر وغیرہ کی گرفتاری کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی گئی ہے کہ تمام مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائیگا۔پاکستان اور انڈیا پر زور دیا گیا ہے کہ کشمیر سمیت تمام معاملات ،معنی خیر ڈائیلاگ کے ذریعے حل کئے جائیں۔آخر میں ڈائیلاگ کا لبِ لباب کچھ ان الفاظ میں لکھا گیا۔
"The two sides reiterated their commitment to Democracy, Human Rights, Economic growth, Respect for International Law as essential for long term regional Peace and Prosperity."
اگرچہ اعلامیے کی سفارتی زبان میں کچھ قابلِ اعتراض نہیں لکھا گیا مگر اہل بصیرت کو صاف نظر آتا ہے کہ ہمارا ڈیفنس، سٹریٹیجی،سکیورٹی، اکانومی، تعلیم، دنیا میں نیک نامی غرض سب کچھ دو باتوں کی مرہون منت رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ایک تو افغانستان کے معاملے میں’’ ڈو مورـ‘‘اور دوسرا ہندوستان کی علاقے میں برتری تسلیم کرلینا۔افغانستان کے معاملے میں تو ایڈجسٹمنٹ کی جاسکتی ہے مگر بھارت کے معاملے میں ہماری ہر شرافت کو کمزوری سمجھا جائیگا۔ہندوستانی وزیرِ دفاع کیطرف سے اس اعلامیہ کے فوراً بعد اسلام آبادکو پٹھانکوٹ واقعہ میں ملوث کرنا و دیگر کے بیانات انکی منفی سوچ اور کم ظرفی کا اظہار ہے جبکہ ہماری طرف سے انڈیا کے روز افزوں ہتھیار اکٹھے کرنے کے مقابلے میں اپنی عسکری و ایٹمی صلاحیت کا Full Spectrum پر تیار رکھنے کا عزم ایک منطقی اور مدّبرانہ اعلان ہے یقیناً امریکہ برصغیر میں طاقت کے توازن کی اہمیت کو جانتا ہے بلکہ پوری دنیا کو علم ہے کہ ہندوستان افواج اور اسلحہ کی عددی برتری کو پاکستانی ٹیکٹیکل نیو کلئیر ہتھیار ہی روکے ہوئے ہیں جو مکمل دفاعی صلاحیت ہے اس لئے امریکہ اس پر قطعاً زور نہیں ڈالے گا۔ ہمارے انڈیا سے حالات بہترکرنے میں بھی زیادہ فائدہ اسی کا ہے لہٰذا امریکہ کو اسے رویہّ بہتر کرنے کا کہنا چاہیے ۔جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہ ہمارے ساتھ سوفٹ شعبوں میں تعلقات بڑھانا چا ہتاہے جس پر ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

مزیدخبریں