امام احمد بن حنبلؒکے دور میں خلق قرآن کا مسئلہ سامنے آیا تو اس دار و گیر میں امام احمد اور محمد بن نوح کو گرفتار کیا گیا۔ ان کو مامون الرشید کے سامنے پیش کرنے کیلئے الرقہ یاطرسوس لے جایا جا رہا تھا کہ مامون کی وفات ہوگئی، لیکن مرنے سے پہلے وہ اپنے جانشین المعتصم کو وصیت کرگیا کہ زبردستی کی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے۔ محمد بن نوح تو راستہ میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ امام احمد بن حنبلؒ کو پابجولاں واپس بغداد لایا گیا۔ کچھ دن قیدخانے میں رکھنے کے بعد ان کو نئے خلیفہ ابو اسحاق المعتصم کے سامنے پیش کیا گیا۔ معتصم نے ہر طرح کوشش کی اور سمجھایا کہ امام احمد اس کی بات مان لیں لیکن آپ نے اپنے مؤقف پر اصرار کیا۔ اس پر المعتصم کو غصہ آگیا اور اس نے حکم دیا کہ آپ کو کوڑے لگائے جائیں۔ کوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے آپ کئی بار بیہوش ہوجاتے تھے لیکن استقامت میں ذرہ بھی فرق نہیں آنے دیا۔ اس طرح آپ نے 82ماہ کے قریب قید و بند اور کوڑوں کی سختیاں جھیلیں۔آپ نے کئی صدیاں قبل اپنے عہد کے ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ۔۔ہمارے اور تمہارے درمیان جنازے فیصلہ کرینگے۔آج وہ مثال ہماری قوم نے ایک مرتبہ پھر دیکھ لی ہے کہ کس کے جنازے میں فرشتوں نے شرکت کی اور کس کا جنازہ پڑھانے کیلئے کوئی امام ہی نہیں مل رہا تھا درحقیقت پاکستان آج کل نامہرباں رتوں کی زد میں ہے، حکومت قوت کے ساتھ 18 کروڑ عوام کے جسموں سے روح محمدؐ نکال کر اسے مٹی کا ایک ڈھانچہ بنانے پر گامزن ہے، بہر حال ’’ ہر فرعون را موسیٰ است‘‘ ہر کسی کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے باقی اللہ تعالی تو کسی کا محتاج نہیں وہ قرآن مجید کی حفاظت کا کام ظالم و جابر حکمران حجاج بن یوسف سے بھی لے لیتا ہے، اسے جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، وہ تو ایک حقیر سے مچھر سے بھی بڑاکام لے سکتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ جس طرح ہم نے ایک پرائی اور بے ننگ و نام جنگ کو اپنے اعصاب پر سوار کر رکھا ہے۔ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ہماری رسوائی کا عالم یہ ہے کہ افغانستان جیسا ملک ہمیں آنکھیں نکال رہا ہے جبکہ پٹھانکوٹ حملے کا مقدمہ درج کرنے اور درجن بھر عسکریت پسندوں کو تحویل میں لینے کے باوجود بھارت نے سارک کانفرنس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا ہے لیکن اگر ہم اپنے عقائد نظریات اور اصولوں پر ڈٹے رہتے تو آج بھارت دم ہلا کر ہمارے پائوں چاٹ رہا ہوتا لیکن دور کے منظروں سے ہٹ کر سامنے بچھے دستر خوانوں پر بیٹھنے کے بعد ہماری خودداری پر بھی سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں، ہمارے ملک میں سرے سے کوئی سیاسی قیادت ہی نہیں، کوئی کسی جنرل کی چھتری کے سائے میں بڑا ہوا تو کسی کو اسٹیبلشمنٹ نے تھپکی دے کر میدان میں اتار دیا اور 18 کروڑ عوام نے بھی ایک سے مایوس ہو کر دوسرے کی اقتدار کرلی جبکہ ان میں ہر کوئی غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل پر گامزن ہے، کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ایٹمی پروگرام پر بیان جاری کرنے پڑ رہے ہیں، صاحب عقل اس سے کابینہ میں گروپ بندی اور حکمرانوں کے منظور نظر افراد کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جو کام وزیر دفاع کا ہے وہ وزیر خزانہ کر رہا ہے، جو وزیر خارجہ کی ذمہ داری ہے وہ بھی وزیر خزانہ نے سنبھال رکھی ہے داخلی امور اور بین الصوبائی وزارت کے اختیارات بھی انکے پاس ہیں تو پھر وزیراعظم اس قوم پر رحم کرتے ہوئے دیگر وزراء کو گھروں میں بٹھا کر خزانے کا بوجھ ہی ہلکا کردیں کیونکہ تعلیم سے لے کر صحت تک تو کوئی پلان سامنے نہیں تعلیمی لحاظ سے ہم پستی کی گہرائیوں میں جا رہے ہیں، ہماری کوئی ایک یونیورسٹی عالمی رینکنگ میں نہیں جس ملک میں ایچ ای سی سے لے کر یونیورسٹیوں کے وی سی تک کی تقرری وزراء ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سفارش سے ہو اس ملک میں تعلیم کا آپ خود اندازہ لگا لیں، 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم تو یتیم ہی ہو گئی ہے، ہمارے معاشرے میں باپ جب دوسری شادی کرے تو یتیم بچے دوسروں کے رحم وکرم اور دروازے پر ہوتے ہیں، بعینہ ایسا ہی ہماری تعلیم کا حال ہے یہ بھی یتیم ہو چکی ہے، تعلیم کے وزراء نیب کو مطلوب ہیں ایسے میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ہم تعلیمی میدان میں آگے نکل جائیں گے۔ ہر سکول ٹیچر کالج کا پروفیسر یونیورسٹی کا ڈاکٹر شکم سیری کا سامان کرنے کی تگ ودو میں ہے۔ کسی دور میں تعلیم ہماری ساری دانش، ساری حکمت اور ساری بصیرت کا مصرف سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس پر ’’انا اللہ وانا الیہ راجعون‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔صحت کا حال بھی اس قدر برا ہے کہ بڑے بڑے ہسپتالوں سے لے کر ڈسٹرکٹ ہسپتالوں تک ہر ایک میں سفارش کلچر عروج پر ہے ۔وفاقی حکومت نے بجٹ میں صحت کیلئے پیتینس ارب ساٹھ کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ پچیس ارب ستر کروڑ روپے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کی مد میں رکھے گئے ہیں جو سترہ جاری اسکیموں کیلئے تھے۔ پنجاب حکومت نے صحت کیلئے تریپن ارب چوہتر کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ لاہور میں کڈنی سینٹر اور جگر کی پیوندکاری اور کینسر اسپتال بنانے کے لیے بھی فنڈز مختص کیے ہیں۔سندھ حکومت نے تینتالیس ارب اٹھاون کروڑ روپے صحت کیلئے مختص کیے۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی ٹرانسپلانٹ میں مفت علاج کیلئے دو ارب روپے جبکہ انڈس اسپتال میں مفت علاج اور کینسر ٹریٹمنٹ کیلئے تیس کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ صوبے کے سو بنیادی صحت مراکز کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان بھی کیا گیا۔خیبر پختونخوا کے بجٹ میں صحت کیلئے بائیس ارب روپے رکھے گئے جبکہ بلوچستان حکومت نے بجٹ میں چودہ ارب چودہ کروڑ روپے رکھے ہیں۔لیکن اس کے باوجود محکمہ صحت کا برا حال ہے۔
صوبائی محکموں کا حال بھی سب کے سامنے ہے موجودہ حکمرانوں کی عیاشی دیکھ کر لوگوں کو پرانے حکمران یاد آتے ہیں مجھے آج سابق صوبائی وزیر بہبود آبادی نیلم جبار چوہدر ی کا وہ سادہ آفس یاد آرہا ہے نیلم جبار چوہدر ی پی پی 86 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے پیپلز پارٹی کا الیکشن جتنے والی واحد خاتون تھیںوہ ضلع ناظم کا الیکشن بھی بہت کم ووٹوں سے ہاری تھیںلیکن دل کو روئوں یا جگر کو پیٹوں کے مصداق اسی سابق وزیر کا شوہر چوہدری عامر جبار اناڑی ڈاکٹروںکا شکار ہوا جس ملک میں اچھے سیاستدانوں کے ساتھ ایسا ہوا ہو اس ملک میں صحت کا معیارکیا ہو گا؟؟؟
دل کو روئوں میں یا جگر کو پیٹوں
Mar 04, 2016