محبت سے کب تک بھاگو گے؟

محبت کا کوئی زمانہ نہیں ہوتا۔ یہ کسی بھی عہد میں، کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ سالوں بعد آنے والوں سے، حال میں رہنے والوں یا صدیوں پہلے گزر جانے والوں سے، یہ کسی بھی وقت کسی بھی سبب یا بے سبب ہو سکتی ہے۔ یہ عمریں نہیں دیکھتی۔ یہ رنگ، قوم اور نسل کا فرق بھی نہیں کرتی۔ بس کہیں بھی سینے سے نکلتی ہے اور بھاگ کر اپنے محبوب کو تھام لیتی ہے۔ محبت کے کئی محبوب ہو سکتے ہیں۔ ایک دو تین اور بعض اوقات اسے ہر اس شے سے محبت ہو جاتی ہے جس میں کچھ نہ کچھ اس جیسا ہو۔ مجھے محبت بلی نے سکھائی۔ وہ جس انسان سے مانوس ہو جائے اس کے پاﺅں میں لوٹتی ہے، اس کی ٹانگوں کے ساتھ اپنا جسم رگڑتی ہے۔ آپ اسے گھنٹوں نہ روکیں وہ اسی طرح لوٹ پوٹ ہوتی رہتی ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ جس کے پاﺅں میں اپنی تمام تر نرمی کے ساتھ پڑی ہوئی ہے وہ اچھا ہے یا بُرا۔ وہ بھول جاتی ہے کہ اس کے منہ میں خونخوار تیز نوکیلے دانت ہیں اور اس کے پاس دو ظالم قسم کے پنجے بھی ہیں۔ اسے تو بس انسیت ہوتی ہے یا پھر عشق کہ اسے جہاں بھی چھوڑ کر آئیں واپسی کا راستہ نہیں بھولتی۔ میں یہ کہتے ہوئے محبت کی وہ ساری نرمی اور گرمی محسوس کر سکتی ہوں جو بلی ہمارے پاﺅں سے اپنے نرم اور روئی جیسے محبت سے بھرے وجود کو رگڑ کر ہمیں دینا چاہتی ہے۔ اس کے بدلے میں وہ صرف ہماری توجہ چاہتی ہے۔جب ہم یونیورسٹی کی گراﺅنڈ میں بیٹھے ہوتے تھے تو سامنے کینٹین سے اکثر لڑکیاں چیخیں مارتے ہوئے باہر نکلتی تھیں کہ وہاں بلی ان کے پاﺅں میں آ کر اپنا جسم ان سے رگڑتی تھی۔ بعض اوقات محبت یونہی بے وجہ ملے تو انسان اچانک اسے قبول نہیں کر پاتا یا پھر ڈر کر بھاگ نکلتا ہے۔ لیکن محبت اپنی قسمت آزماتی رہتی ہے۔ وہ ایک پاﺅں سے نکلتی ہے تو دوسرے پاﺅں میں چلی جاتی ہے۔ محبت کا مقام بھلے دل میں ہے لیکن جب تک کوئی کسی کے پاﺅں میں اپنا سارا غرور ، اپنی ساری انا اور اپنی ساری ذات نہیں رکھ دیتا‘ محبت دل میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی۔ وہ اس سے نکلتی ہے اور کہیں اور اپنی قسمت آزماتی ہے۔ اور جہاں اسے کوئی پکڑ کر اپنی گود میں لیتا ہے یہ وہیں اسی مقام کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ کوئی بھی محبت کو زیادہ دیر اپنے پاﺅں میں نہیں بٹھا سکتا۔ نہ ہی محبت زیادہ دیر کسی کے پاﺅں میں رکتی ہے وہ چلتی رہتی ہے ایک مقام سے دوسرے اور جہاں جگہ ملتی ہے پڑاﺅ کر لیتی ہے۔ جہاں یہ پڑاﺅ کر لیتی ہے وہاں سے خیر کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ وہ زمین آباد ہو جاتی ہے اور وہاں رونق لگ جاتی ہے۔ ویرانوں میں بھی چراغ جلنے لگتے ہیں۔
ہر علاقے اور ریاست میں یہاں تک کہ جنگلوں اور صحراوں میں بھی محبت کی ایک ہی زبان ہے، ایک ہی رنگ ہے۔ یہ مقام ضرور بدلتی ہے لیکن اس کی بولی ہر اس جگہ سمجھی جاتی ہے جہاں جہاں اسے سنا جا سکتا ہو۔ یہ اندر ہی اندر چپ چاپ اترتی چلی جاتی ہے اور کیمیائی عمل کے ذریعے خون کی گردش میں شامل ہو جاتی ہے۔ جس کے نتیجہ کے طور پر منفی انا کی موت واقع ہو جاتی ہے اور سارا غرور اور تکبر عاجزی میں بدل جاتا ہے۔اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو بندہ کسی کے لئے بھی بے ضرر ہو جاتا ہے۔ وہ ہر ایک کی خیر چاہتا ہے۔ وہ ہر قابل نفرت شے سے بھی محبت کرتا ہے۔ وہ بالکل بلی کی طرح نرم و گداز جذبہ لئے ہر ایک کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ محبت مسکراتی بھی ہے اور کبھی کبھی قہقہے بھی لگاتی ہے۔ محبت روتی نہیں ہے کیونکہ یہ کبھی نااُمید نہیں ہوتی۔ اس کی آنکھوں میں نمی آ بھی جائے تو وہ نمی بھی دوسرے کے لئے درد کی نمی ہوتی ہے۔ وہ کبھی خود غرض نہیں ہوتی۔
میں جب بھی محبت کی بات کرتی ہوں اور کبھی کسی کو سمجھانا چاہوں کہ بے غرض اور بے لوث محبت کیا ہے تو اپنے اردگرد لوگوں کے دلوں کو ٹٹولتی ہوں یا پھر یادوں کی گلیوں میں آوارہ گردی کرتی ہوں۔ مجھے ہر نکڑ اور ہر موڑ پر سب سے پہلے امی اُبو کھڑے نظر آتے ہیں۔ جن کی ناراضی اور غصہ بھی سوائے محبت کے کچھ نہیں ہوتا۔ بچے والدین کے محبوب ہوتے ہیں۔ ان کی محبت اپنے محبوب کے لئے بھوکی سو سکتی ہے۔ اور ٹھنڈی یخ بستہ رات میں جب لحاف ایک ہو تو محبوب کو اوڑھا کر ساری رات اس کی تپش اور احساس میں بغیر لحاف کے گزار سکتے ہیں۔ محبت خود میلے کپڑے پہن لیتی ہے اور اپنے محبوب کے لئے تھوڑی تھوڑی جمع پونجھی جمع کر کے ہر موقع پر نئے کپڑے بنا سکتی ہے۔ اور اپنے سارے خواب ایک کمزور اور لاغر جسم سے منسوب کر کے ہنستے کھیلتے جی سکتی ہے۔ بغیر غرض اور لالچ کے وہ اپنے محبوب کے لئے قربانیاں دیتی ہے۔ محبت ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہو جاتی ہے، فنا نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ مذہبی کتابوں ، صحیفوں اور ویدوں نے بتایا کہ اگلی دنیا اور اگلے جنموں میں بھی محبت ہی زندہ رہے گی۔ جب سب کچھ تباہ ہو جائے گا، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑا دئیے جائیں گے اور سورج پھیل جائے گا تب بھی محبت کو ہی پناہ ملے گی۔ اس پر نہ سورج کی گرمی اثر کرے گی اور نہ اسے کسی شے کا خوف ہو گا۔ کائنات میں ہر طرف محبت پھیلی ہوئی ہے۔ بادلوں سے برستی بارش بھی محبت ہے۔ سمندروں سے بے تابی میں اٹھتے آبی بخارات بھی محبت ہیں۔ زمین سے چمٹے پہاڑ اور زمیں میں سرائت کئے ہوئے درختوں کی جڑیں ، آسمان کی وسعتوں کو اپنے پروں سے ناپتے پرندے بھی محبت ہیں۔ وادیوں میں گیت گاتی آبشاریں، جوہڑوں کے بدبودار سیال پر کھلنے والے کنول اور کیکٹس پر اگنے والے پھول بھی محبت ہیں۔ کائنات کی رگوں میں دوڑتی ہوئی زندگی محبت ہے۔ محبت ہمارے پیچھے پیچھے آتی ہے اور ہم اس سے ڈر کر اس سے بھاگتے رہتے ہیں یہاں تک کہ محبت پیچھا کرنا چھوڑ دیتی ہے یا پھر وہ مکمل طور پر سارے اختیارات کی مالک بن جاتی ہے۔ کائنات کی ہر شے ہمیں محبت پر اکساتی ہے۔ یہ کائنات کی روح ہے۔ یہ ہر موڑ پر کھڑی ہے۔ کیا محبت سیکھنے کو فطرت کی یہ درس گاہ اور محبت کرنے کے لیے یہ کائنات نا کافی ہے؟

ای پیپر دی نیشن