کہتے ہیں جہاں بوم بستے ہیں وہاں ویرانیاں قدم جمالیتی ہیں۔کچھ کا خیال ہے ویرانیوں کی وجہ الّو نہیں نا انصافیاں ہو تی ہیں۔کچھ دانشوروں کو اس سے بھی اختلاف ہے انگریزوں سے زیادہ نا انصافی شاید ہی کسی نے کی ہو لیکن وہاں ویرانی ڈھونڈھے سے نہیں ملتی ان کے ایک وزیر اعظم کا قول’’ اگر انگلینڈ میں عدالتیں (درست) کام کر رہی ہیں تو انگلینڈ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ‘‘ جسے دہرانے کا کوئی موقع ہمارے سیاستدان بشمول حکمران،حزب اختلاف ، میڈیا،جج صاحبان،وکلاء غرض شعبہء زندگی کا کوئی بھی ستون ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ لیکن ہمارا کچھ اور ہی خیال ہے۔ انگریزوں کے یہاں ویرانی تو نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جن کی سلطنت اتنی بڑی تھی کہ اس میں سورج نہیں ڈوبتا تھا اب سمٹ کر ایک جزیرے تک محدود ہو گئی ہے جس کی وجہ ان کی نا انصافیاں ہیں جو وہ دنیا کی دیگر قوموں بالخصوص مسلمانوں سے روا رکھے ہوئے ہیں
ہمارے ملک کا حال بھی عجب ہے یہاں ویرانیاں،حیرانیاں اور پریشانیاں سب سے زیادہ ہیں، کا بوجھ اکیلے عدالتیں نہیں اٹھا سکتیں۔ دھوکہ دہی، بے ایمانی ، رشوت، غداری، بہتان تراشی، جھوٹ ، غیبت اوراقربا پروری کے علاوہ کونسا گناہ یا جرم ہے جس میں ہماری قوم کی اکثریت مبتلا نہیں۔۔اس میں امیری غریبی کی تفریق نہیں ۔ ایک قطرہ ہو یا ایک گلاس یا ایک ڈرم۔
اکثر دینی شخصیات بھی اس سے مبّرا نہیں۔وہ بھی حسب توفیق کام دکھا رہی ہیں۔جھوٹی، من گھڑت، روائیتوں حکائیتوں کے علاوہ تفرقہ، مسلمانوں کی تقسیم کے ذمہ دار بھی یہ ہی ہیں۔جنت اور دوزخ کی الاٹمنٹ بھی انہوں نے اپنے ذمے لے لی ہے۔ایمان اور کفر کے سرٹیفیکیٹ بھی یہ ہی جاری کرتے ہیں۔
لوگ ویرانی سے جو مراد لیتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ پریشانی، بیچینی ،بے اطمینانی بے برکتی ہمارے ملک میں دندنا رہی ہے لیکن طُرفہ تماشہ یہ کہ کسی کواس کا احساس ہی نہیں ۔۔اللہ نے ہمیں بے حس کردیا ہے۔لیکن قابل افسوس یہ کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس رہے ہیں۔اس سے کیا فرق کہ گھن زیادہ ہیں یا گیہوں۔۔ ( یہ محاورہ ہماری سمجھ سے بالا ہے لیکن موقع کی مناسبت سے کوئی اور یاد نہیں آرہا)بس یہ سمجھیئے میں نے شوقِ گُل بوسی میں کانٹوں میں زباں رکھدی بات طویل ہو گئی اور ویرانیوںاور پریشانیوں کی جملہ وجوہات کا ذکر لے بیٹھے ورنہ یہ حقیقت ہے ان تمام برائیوں کی جڑ نا انصافی میں اور علاج انصاف میں ہے،لیکن کیا کیجیئے کہ ملک میں ا ب دو دو قانون چل رہے ہیں۔ایک ہی قسم کے جرم میں سزا بھی مل سکتی ہے اور کلین چٹ بھی۔ایک جیسی سزا پانے والوں میں سے ایک پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا لیکن دوسرا اپنی پارٹی کاجنرل سیکریٹری بن سکتا ہے۔ایک ملزم کے مقدمات تیزی سے نبٹائے جاتے ہیں تودوسرے کی سماعت ہی نہیں شروع ہو پاتی۔ایک ملزم کو اس پر لگائے ہوئے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لیئے ثبوت دینا لازم تو دوسرے کو یہ سہولت کہ الزام لگانے والے کو ثبوت بھی دینا ہونگے۔ کسی کے بیرون ملک گواہان کو بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت نہیں لیکن کسی کو یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ فیصلے بولتے تھے اب فیصلوں کو ترجمان کی حاجت رہتی ہے۔پہلے لوگ فیصلے بے چوں چرا مان لیتے تھے اب قسمیں کھانی پڑتی ہیں پھر بھی یقین نہیں کرتے پارلیمنٹ آئین بناتی ہے قانوں بناتی ہے اورعدالتیں تشریح کرتی تھیں۔اب اس پر جھگڑا کہ آئین بنانے والے سپریم ہیں یا تشریح کرنے والے۔
پہلے متنا زعہ شخص نہ منصف ہوتا تھا نہ تفتیشی افسر۔اب ایسا نہیں ہوتا۔اب متنازعہ تفتیشی افسر چاہے تو اپنی مدد کے لیئے اپنے رشتہ داروں کی خدمات مہنگی اجرت پر حاصل کرسکتا ہے۔آخر ’’ چیریٹی بگنس ایٹ ہوم ‘‘( charity begins at home) بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔۔ آجکل اردو تحریک زوروں پر ہے لیکن مجبوراً انگریزی محاورہ استعمال کرنا پڑ رہاہے ہیں کیونکہ اس کی اردو’’ خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے‘‘ سے کچھ تحقیرسی محسوس ہورہی ہے۔۔ حالانکہ یہ خیرات دھڑلے سے بٹ رہی ہے۔