ہمارے دیرینہ دوست بیرسٹر ضیاء اللہ ذکی اپنے بھانجے کی شادی میں شرکت کے لئے لندن سے لاہور آئے تو ہمارے گھر شادی کا کارڈ پہنچایا۔ یہ شادی اور ولیمہ انٹرکانٹیننٹل ہوٹل میں ہو رہا تھا۔ جب ہم ولیمہ کی دعوت پر مذکورہ ہوٹل میں پہنچے تو بیرسٹر ضیاء اللہ ذکی نے اپنے ایک دوست سے ہمارا خصوصی تعارف کروایا اور بتایا کہ میرا یہ دوست سید ذوالفقار حسین ایک بے مثال اور زبردست سماجی خدمت فی سبیل اللہ سرانجام دے رہا ہے۔ میں نے ان کے دوست سے ہاتھ ملایا تو وہ بولے کہ میں باقاعدگی سے آپ کے قطعات اور کالم پڑھتا ہوں۔ آپ دونوں ایسا کریں کہ کل میرے دفتر میں آ جائیں۔ وہاں میں آپ کو اپنی سماجی خدمات کی تفصیلات سے آگاہ کروں گا۔ بیرسٹر ضیاء اللہ ذکی نے میری طرف اثباتی نظروں سے دیکھتے ہوئے سید ذوالفقار حسین سے وعدہ کر لیا کہ ہم کل گیارہ بجے آپ کے دفتر میں ہوں گے، پھر میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا کہ کل ساڑھے دس بجے میں آپ کے گھر آ جائوں گا۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ …ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
پھر دوسرے دن سید ذوالفقار حسین سے ملاقات ہوئی تو ان کی سماجی خدمات کو سُن کر میں حیرت زدہ رہ گیا اور سوچا کہ کیسے کیسے سماجی رہنما ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ہم گڑھی شاہو میں ان کے دفتر پہنچے تو وہ اپنے عملے سمیت ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ جب ہم ان کے دفتر میں بیٹھے تو انہوں نے بتایا کہ میں نے آپ دونوں کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا ہے جو دفتر کے ساتھ جڑے ہوئے ہال میں منعقد ہو گی۔ وہاں آپ دونوں کی تقاریر سے قبل میں اپنی سماجی کارکردگی کو بیان کروں گا اور اپنے ساتھیوں سے آپ کا تعارف بھی کروائوں گا۔ پہلے آپ چائے پی لیں۔ کھانا تقریب کے بعد کھائیں گے۔
تقریب کا آغاز ہوا تو تلاوت کلام پاک کے بعد سٹیج سیکرٹری نے اعلان کیا کہ ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ ہب اور یوتھ کونسل فار اینٹی نارکوٹکس کے بانی سید ذوالفقار حسین اپنی مذکورہ تنظیمات کی تشکیلی وجوہات اور کارکردگی سے متعلق معلوماتی حقائق بیان کریں گے۔ سید ذوالفقار حسین نے اپنی تقریر میں حیرت انگیز انکشافات کئے، جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔
سید ذوالفقار حسین نے بتایا کہ اس وقت لاہور کی آبادی گیارہ ملین کے لگ بھگ ہے۔ لاہوریوں کی فطرت میں نشہ آور اشیاء اور ادویات کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے وہ نہایت پریشان کن ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جس تیزی سے نشے کے عادی ہو رہے ہیں وہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے۔ اسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے میں نے فی سبیل اللہ دو تنظیمیں بنائی ہیں اور نشہ آور اشیاء کے نقصانات کے ادراک کے لئے آگاہی مہم شروع کی ہے۔ جس کا دائرہ یونیورسٹیوں، سکولوں اور کالجوں تک پھیلا دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت لاہور میں بیس علاقے ایسے ہیں جہاں یہ نشہ آور اشیاء کھلے عام استعمال کی جا رہی ہیں۔ لاہور کے سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی یہ نشہ طالب علموں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ طالب علموں کے لئے میں اپنی خدمات کا ذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ لاہور کے کون کون سے علاقے نشہ کرنے والوں کی زد میں ہیں۔ ان علاقوں میں روشنی گیٹ، ٹکسالی گیٹ، مستی گیٹ، داتا دربار کے اِردگرد کا علاقہ، رائل پارک، علی پارک، نسبت روڈ، ریلوے سٹیشن، جنرل بس سٹینڈ، گڑھی شاہو، ڈیوس روڈ، کوئینز روڈ، گنگا رام چوک، ریگل چوک مال روڈ، چوبرجی اور یتیم خانہ چوک وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ میٹروبس ٹریک کے نیچے بھی نشہ باز لیٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اب لاہور میں جو نیا اورنج ٹرین ٹریک بن رہا ہے اس پر یتیم خانہ چوک سے باغبان پورہ تک نشہ باز بیٹھے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اس تفصیل کے بعد سید ذوالفقار حسین نے ان نشہ آور اشیاء کا انکشاف بھی کیا جو لاہورئیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان اشیاء میں ہیروئین، کوکین، حشیش، ایل ایس ڈی گولیاں، ای سٹے گولیاں، کرسٹل لی اور انجکشن اے کلاس میں شامل ہیں جبکہ بی کلاس میں الکوحل، افیون، بھنگ، گُٹکا، پان، نشیلی گولیاں اور مختلف کیمیکل میں شامل ہیں۔ اس کے بعد سید ذوالفقار حسین نے طالب علموں کی طرف گفتگو کا رُخ موڑا اور انکشاف کیاکہ تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں طالب علم یہ تمام نشہ آور اشیاء استعمال کر رہے ہیں۔ میں نے تمام تعلیمی اداروں میں نشہ کے خلاف آگاہی مہم شروع کی ہے اور اب تک یونیورسٹیوں میں باون اساتذہ کالجوں میں سات سو نوے اساتذہ اور سکولوں میں دس ہزار اساتذہ کو یہ تربیت فراہم کی ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کو نشہ آور چیزوں کے استعمال روکنے کے لئے ان کے نقصانات سے آگاہی مہم کا آغاز کریں۔ان اداروں میں ایسے فوکل پرسن بھی نامزد کئے گئے ہیں جو طالب علموں کو وقتاً فوقتاً نشہ آور چیزوں کے صحت پر مرتب ہونے والے مضر اثرات سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ ہماری کاوشات کے نتیجے میں اب تک دو یونیورسٹیاں، دو کالج اور تین سکول نشہ آور اشیاء سے مکمل طور پر آزاد ہو چکے ہیں۔
سید ذوالفقار حسین نے ہمیں کچھ پمفلٹ بھی دئیے، جس پر نسوار، تمباکو، بھنگ، حشیش، چرس، گٹکا، ہیروئین اور دیگر منشیات کے نقصانات درج ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ دو سال میں ہم نے اس حوالے سے حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔ شاہ صاحب کی باتیں سُن کر ہم حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ شخص بغیر کسی ذاتی لالچ کے کتنی بڑی مہم چلا رہا ہے۔ ایسے بے مثال لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ہمیں ان کی کاوشات میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔
ہم کو کچھ احساس ہی ہوتا نہیں ان کا مگر
کیسے کیسے لوگ ہمارے درمیاں موجود ہیں