ریاست سے وفاداری لازم !

کوئی ڈیڑھ برس قبل بہاولپور میں پہلی بار سرکاری جہاز کے ذریعہ جانے اور سولر بجلی کے ایک بڑے منصوبے کے آغاز پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے پوری قوم کو ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے یہ مژدہ سنایا کہ ابھی سو میگاواٹ سسٹم میں داخل ہوئی ہے باقی بجلی بھی بتدریج قومی گرڈ میں شامل ہوتی رہے گی۔ بظاہر یہ پنجاب حکومت کا پروجیکٹ ہے، دیکھ کر سن کر کس کو خوشی نہ ہوتی۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے خطابات بصیرت افروز تھے، خوش آئند تھے۔ یہ ترقی کا سفر تھا جس جگہ پروجیکٹ لگا وہاں تک سڑکیں بہت اچھی بن چکی تھیں۔ وہاں سوال جواب کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ سامعین، ناظرین اور مقررین بھی تھے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ یہ پروجیکٹ ایک کمپنی بنا کر پنجاب بنک سے قرضہ لے کر شروع ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ نے یہ گلہ بھی کیا کہ انہوں نے ملک کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے ساتھ سرمایہ کاری کی بات تھی مگر کسی نے حامی تک نہ بھری۔ خوشی تو ہو رہی تھی مگر حیرانگی بھی تھی کہ کیونکر ملکی سرمایہ دار اس منافع بخش پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے۔ دیدنی تھا وہ منظر جب جذباتی وزیراعلیٰ نے ٹیرف کے حوالہ سے وفاقی حکومت کے ایک محکمہ پر وزیر پانی و بجلی اور وزیراعظم کی موجودگی میں تنقید کی۔ بچت کی ایک کہانی بھی متاثرکن تھی۔ لوگوں کی محنت، لگن، جانفشانی اور ایمانداری کو داد ہی دی جا سکتی تھی۔ افسوس قلمکار اور صحافی کے طور پر تالیاں بجانا میرا کام نہ تھا۔ وزیراعلیٰ نے لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے ایک صاحب کے لئے ان کے قد اور قامت سے بڑا حکومتی تحفہ ان کو دینے کا مطالبہ کیا۔ بھائی تو بھائی کی زبان خوب سمجھ سکتا ہے۔ حکمرانوں کی زبان، ادا، تعریف اور لغت الگ ہی ہوتی ہے۔ کرنے کے کام خاموشی سے بھی کر دیتے ہیں۔ نہ کرنا ہو تو کان بھی نہیں دھرتے۔
سو میگاواٹ کا یہ پروجیکٹ قومی گرڈ سٹیشن میں غالباً صرف 14 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے۔ تعمیر کوئی سستی نہ تھی اور ابھی کئی سو میگاواٹ بجلی یہاں سے حاصل کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ ہر سو میں سے صرف 14 میگاواٹ ہی مل سکے گی۔ جانے پنجاب بنک کیسے چل رہا ہو گا مگر کمپنی میں اسکے سرکردہ افراد بھی شامل ہیں۔ غالباً پنجاب حکومت کے اس وقت 19ویں گریڈ کے ایک افسر بھی اس کمپنی کے روح و رواں تھے۔ انہی کے لئے ان کی فرض شناسی، اعلیٰ خدمت، ایمانداری، لگن، جوش و جذبہ، قابلیت، فراست، بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور شیشہ میں اتارنے کے ہی بدولت ان کے لئے ان کی اعلیٰ خدمات کا حکومتی سطح پر اعتراف درکار تھا۔ ہر شخصیت اس وقت نیب کے پاس احد چیمہ کے نام سے زیرحراست ہے مگر اس مقدمہ یا اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں نہیں بلکہ لاہور میں بنائی جانے والی ایک ایسی رہائشی سکیم کے حوالے سے کہ جس میں اربوں روپے کے معاملات کی تحقیقات ہونا ابھی باقی ہیں۔
25 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں پاکستان بچائو ایک آپریشن فوج نے شروع کیا تھا مگر مکتی باہنی نے بھارت کے ایما اور عوامی لیگ کی آواز پر سرکاری دفاتر میں کام بند کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ عوامی لیگ ایسا پہلے بھی کر چکی تھی۔ تب تمام پاکستانی سیاسی جماعتوں، زعمائ، رہنمائوں اور رائے عامہ نے اس کو ریاست کے ساتھ بغاوت تعبیر کیا تھا۔ پنجاب سیکرٹریٹ اور متعلقہ ادارے ایک سرکاری افسر کی حمایت میں اگر سرکاری دفاتر کو تالے لگا دیں اور حکومت مسلم لیگ کی ہو تو اس کو بغاوت نہیں وفاداری کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وفاداری بشرط استواری بھی کتابوں میں لکھا مل جاتا ہے۔ اگر مقامی حکومتیں، صوبائی حکومتیں اور خدانخواستہ وفاقی حکومت بھی اس روش پر چل پڑے تو وفاداری کس کے ساتھ ہو گی۔
آئین پاکستان تو اپنی دفعہ 5 میں صراحت کے ساتھ مملکت سے وفاداری اور دستور و قانون کی اطاعت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ملک سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے دفعہ 5(2) میں تحریر ہے کہ دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔
گویا کوئی شخص جو ریاست کا وفادار نہیں وہ غدار ہے اور اس کے لئے دفعہ 6 کہتی ہے کہ کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت کے یا دیگر غیرآئینی ذریعہ سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کرے یا معطل کرنے یا التوا میں رکھے یا اقدام کرے یا تنسیخ کرے کی سازش کرے۔ سنگین غداری کا مجرم ہے۔ جانے مشرقی پاکستان میں یہ بغاوت تھی کہ نہیں اور جو کچھ پنجاب میں ہوا یہ حب الوطنی، قانون کی حکمرانی، ریاست سے وفاداری، ملک کی سلامتی، استحکام، قیام امن اور حلف نامہ کا سربلند کرنا تھا جو ہر سرکا ری ملازم پڑھتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ آئین کی دفعہ 19 میں تحریر کیا گیا ہے کہ ’’اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی، دفاع، غیرممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعہ مناسب پابندیوں کے تابع ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہو گا اور پریس کو آزادی ہو گی‘‘۔
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ سرکاری افسران بظاہر اپنی کرپشن کو چھپانے کے لئے ہڑتال یا تالابندی کی طرف چلے جائیں۔ سرکاری ملازمین تو قانون کے مطابق کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں، کیا ان کے علم میں نہیں کہ اس اقدام کے اثرات کہاں ہوں گے اور پورے نظام اور ریاست کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا ہو گی یہ بھی درست ہے کہ سول سرونٹس کو تحفظ حاصل رہنا چاہئے مگر جب ملزمان مجاز ادارہ کے روبرو پیش ہی نہ ہوں تو پھر قانون پر عمل اور یقین رکھنے والوں کو تو اثرات اور اقدامات کا علم ہونا یقینی ہے۔
وفاقی وزیر خواجہ آصف ماضی میں نیب کی حراست میں بھی رہے اور نیب نے ان سے معذرت بھی کی۔ اس وقت ان پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف نیب عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی بھی نیب کے روبرو پیش ہوئے۔ ویسے تو ظفراللہ جمالی بھی نیب کے روبرو پیش ہوئے، کیا احد چیمہ ان قدآور شخصیات سے بھی بڑا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ نیب نے اس کو گرفتار کیا اور پھر سرکاری افسران کے ردعمل اور اقدامات کے باعث رینجرز کو نیب آفس اور حوالات کی حفاظت کے لئے طلب کر لیا۔ ملزم جرم ثابت نہ ہونے تک باعزت ہی ہوا کرتا ہے احد چیمہ بھی سرکاری ملازمین کے ساتھ نہایت ادب و احترام کا سلوک کرتے کبھی نظر تو نہیں آئے۔ ممکن ہے اگر وہ رہا ہوئے اور نوکری پر واپس گئے تو ان کو آدمیت اور انسانیت کا احترام یاد رہے گا۔
نیب کے حوالوں سے بتایا جا رہا ہے کہ اس معاملہ پر نہ صرف پیشرفت شروع ہو چکی ہے بلکہ حقائق کے حصول کے باعث مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔ یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ نیب کورٹ نے موصوف کی ایماندار شخصیت کی شہرت کے باوجود گیارہ روز کا جسمانی ریمانڈ کیونکر دیدیا، خیر اب ان کی ترقی ہو گئی ہے اور سپریم کورٹ ان دنوں تعیناتی، مشاہرہ مقرر کرنے اور مراعات دینے کے ایک مقدمہ کو سن رہی ہے۔ اس کا فیصلہ پی ٹی وی کے کئی سابق چیئرمینوں پر بھی اثرانداز ہو گا۔
یہ سب تو اپنی جگہ ہیجانی سیاست، سینٹ کے انتخابات، اسمبلیوں کی تحلیل، نئے انتخابات بھی اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ سیاسی بساط تو بچھ چکی ہے، مسلم لیگ کو اپنی صدارت مستقبل کے حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹی آئین اور جمہوری قدروں کے مطابق قانون کے تحت طے کرنی ہے۔ مسلم لیگ کے موجودہ بیانیہ کے بارے میں کئی آراء صائب الرائے دیتے رہتے ہیں۔ ایک واقف حال نے بتایا کہ غالباً 2001ء یا 2002ء کے دوران ایک لیفٹیننٹ جنرل چودھری افتخار مرحوم کے گھر ایک غیر سرکاری، غیررسمی سیاسی اجلاس میں اسحاق ڈار، شیخ رشید، چودھری نثار اور بعض دیگر اصحاب شریک تھے۔ واضح رہے کہ جنرل افتخار چودھری نثار کے بھائی تھے اور اس وقت ریٹائر ہو چکے تھے۔ شریک گفتگو میاں صاحبان کی ملک میں غیرموجودگی کے حوالے سے سیاسی معاملات پر کوئی فیصلہ کرنا چاہتے تھے تو اسحق ڈار صاحب نے یہ رائے دی کہ ایک نئی جماعت بنا لی جائے۔ شیخ رشید نے نئی جماعت بنانے کی مخالفت کی اور ڈار کے ساتھ ملکر اس بات کا اظہار کیا کہ اگر نئی جماعت نہیں بنانی تو مسلم لیگ ق میں شامل ہو جائیں۔ سولہ سترہ برس پرانی سیاسی چال تو اپنی جگہ مگر اب یہ شنید ہے کہ مسلم لیگ ن کی صفوں میں نگران وزیراعظم کے لئے موجودہ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا نام بھی لیا جا رہا ہے اور اسکی دو وجوہات بیان کی جا رہی ہیں اولاً یوں پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی معاملات بھی طے ہو جائیں گے۔ ثانیاً رضا ربانی فوج اور عدلیہ کے حوالہ سے مسلم لیگ کے بیانیہ کے بہت قریب ہیں اور انتخاب جیتنے کی صورت میں نئی آئینی ترامیم آسان ہو جائیں گی۔

قانون کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ نے ملکر باہم فیصلہ کرنا ہے اور اگر تجویز مسلم لیگ کی طرف سے آئی تو پیپلز پارٹی کوئی اعتراض نہ کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن