ہمارے وقتوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے پچھلے تعلیمی ادارے کے پرنسپل کی دستخط شدہ "کردار کی سند" ضروری ہوتی تھی۔کالجوں میں یونین سرگرمیوں میں متحرک طالبعلموں کو پرنسپل حضرات "کردار کی سند " نہ دینے کی دھمکی لگاتے تھے۔ اس سند جس کو انگریزی میں کریکٹر سرٹیفکیٹ جاتا تھا ‘ میں محض اس بات کی تصدیق کی جاتی تھی کہ مذکورہ طالبعلم کا کردار "اطمینان بخش" ہے۔ نجانے اس زمانے میں کسی طالبعلم کے کردار کا تعین کیسے کیا جاتا تھامگر ہر طالبعلم کو یہ سند مل جاتی تھی اور بہت کم ہی کسی کو اس سند کے نہ ہونے کے باعث داخلے سے انکار کیا گیا۔
معلوم نہیں آج کل طالبعلموں کے لئے اس کاغذی کاروائی کی کیا اہمیت ہے مگر سرکاری یا نجی اداروں کی طرف سے جاری کردہ تجربے کی اسناد عام طور پر کسی کی نئی ملازمت کے لئے کافی ہوتی ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹروں کے دور میں کردار کی ایسی سندوں کی اہمیت ہمیشہ بڑھ جاتی تھی۔آمریت کے خلاف آواز اٹھانے والے طلبہ یونین لیڈروں اور برطرف شدہ ملازمین کو کردار کی اسناد دینے سے انکار کیا جاتا تاکہ انکی تعلیم اور ملازمت جاری نہ رہ سکے۔ اس دور میں بھی مذہب اور اخلاقیات کا ہتھیار بخوبی استعمال کیا گیا تھا اور یہی وہ ادوارتھے جب سیاست دانوں کے لئے اچھے کردار کے حامل مسلمان ہونے کا معیار پھانسی کے پھندے کی طرح بلند رکھا گیا۔ آج بھی شکاری وہی پرانے ہیں،صرف جال نیا ہے۔ کسی رکن اسمبلی اور حتیٰ کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کے لئے جس انداز اور جس موقعے پر صادق اور امین ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے، اس سے واضح ہے کہ مقصد آئین یا قانون کی بالادستی نہیں بلکہ آنے والے انتخابات میں کسی سیاستدان کو اتنا مقبول نہیں ہونے دینا کہ وہ پارلیمنٹ میں "خطرناک اکثریت" حاصل کر لے۔
اسی تناظر میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی سے بھی نااہل قرار دے دیا۔ غیر جانبدار مبصرین اورایک مؤقر انگریزی روزنامہ نے منتخب اراکین اسمبلی کے لئے صادق اور امین جیسی آئینی شرائط کو سیاسی جماعتوں کے سربراہان پر لاگو کرنے کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا ہے۔ اس تنقید میں منطق بھی نظر آتی ہے کہ آئین کے آرٹیکل سترہ میں ہر شہری کو سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہے اور یہ ضروری ہرگز نہیں کہ ہر سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کا سربراہ خود الیکشن میں حصہ نہیں لیتا تو کیا اسکو بھی آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ والے کردار کے معیار کے فلٹر سے گزرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟ اور اگر ایسا کوئی پارٹی کا سربراہ الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیتا اور اسکی پارٹی کے کچھ لوگ اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں تو کیا صادق اور امین ہونے کی آئینی شرائط اس پارٹی سربراہ پر براہ راست لاگو کی جاسکتی ہیں؟ اور اگر کوئی سیاسی جماعت کسی غیر مسلم کو اپنا سربراہ منتخب کرتی ہے تو پھر کیا اس پر بھی صادق اور امین ہونے کی پابندی لازمی ہو گی؟ آئین کے آرٹیکل باسٹھ کی ذیلی شقوں میں رکن پارلیمنٹ کے لئے لازم ہے کہ وہ ’’اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور نہ ہو‘‘
اور اسی طرح اگلی شق میں واضح کیا گیا ہے کہ رکن پارلیمنٹ:
" اسلامی تعلیمات کا خاطرخواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیزکبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو"
اسی شق میں آگے جا کر واضح کیا گیا ہے کہ کردار کے مذکورہ معیار کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہو گا۔ تو پھر اگر حکمران جماعت ،تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کل کسی غیر مسلم کو اپنا سربراہ مقرر کرتی ہے ،جس کی کسی جماعت کے آئین میں ممانعت نہیں، تو پارٹی کی صدارت کے حوالے سے فیصلہ کدھر جائے گا اورپھر ایک غیر مسلم کے صادق اور امین ہونے سے متعلق آئین کی تشریح کیسے کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات کے بل میں پارٹی صدارت کی حد تک نااہل قرار دئیے گئے شخص کو بھی اہل قرار دینے کے اپنے تفصیلی فیصلے میں بھی کچھ دلچسپ وجوہات بیان کی ہیں۔جن کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنے پارٹی لیڈر کے رحم وکرم اور انکے ذاتی اشاروں پر چلتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سوچ غلط بھی نہیں اور اسکی بھی ایک تاریخ ہے۔ مگر عدالتیں کبھی بھی محض سوچ اور زمینی حقائق کی بنیاد پر آئین اور قانون کی تشریح نہیں کرتیں۔ عدالتیں آئین اور قانون میں درج الفاظ ، علامات وقف و سکتہ کی تشریح ،تعبیر و تفسیر سے باہر نہیں جا سکتیں۔پارٹی سربراہی سے متعلق سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں آئین کے الفاظ کی بجائے بظاہر زمینی حقائق کو سامنے رکھا گیا ہے مثال کے طور پر کسی پارٹی لیڈر کو حاصل آئینی و قانونی اختیارات پارٹی کے اندر مشاورت و مباحثے سے نہیں بلکہ پارٹی لیڈر کی ذاتی خواہشات و مرضی سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ آئینی و قانونی طور پر سینیٹ کے لئے ٹکٹوں پر دستخط نواز شریف کے ہی کیوں نہ ہوں تو بھی وہ ٹکٹ نواز شریف کانہیں ،پارٹی کا کہلایا جاتا ہے۔ایسے میں اگر فیصلے آئین اور قانون کے الفاظ کی چاردیواری کو پھلانگ کر زمینی حقائق کے پیش نظر ہی کئے جانے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کے پاس یہی موقعہ تھا کہ وہ کچھ دوسرے زمینی حقائق کی بھی جرات مندانہ تشریح کردیتی۔ جہاں نواز شریف کو پہلے بادشاہ کے طور پر نااہل قرار دیا گیا اور بعد میں اسے بادشاہ گر قرار دے کر دوبارہ نااہل کیا گیا وہاں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے بطور ایک پارٹی وجود اور اسکے فیصلوں کو بغیر کسی وجہ کے فرد واحد کی جھولی میں ڈال کر نظر انداز کر دیا گیا۔ نجانے ہمارے آئین میں بادشاہ یا بادشاہ گری کا کون سے صفحے پر ذکر ہے۔ اگر نواز شریف بادشاہ تھا اور پھرنواز شریف ہی بادشاہ گر بن چکا تھا تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس ملک میں نواز شریف سے زیادہ طاقتور لوگ اور ادارے آج بھی دھڑلے سے بادشاہ گری میں مصروف ہیں۔ سپریم کورٹ کے لئے یہ ایک نادر موقعہ تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ نامی بادشاہ گر قوتوں پر بھی اسی اصول کے تحت پابندی لگاتی کہ جو شخص کسی عہدے کے لئے خود نااہل ہے وہ شخص اس عہدے کے لئے کسی اور کو نامزد کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ ہماری سیاسی اور آئینی تاریخ ایسی بادشاہ گری سے بھری پڑی ہے۔
اس ملک میں آئینی طور پر نااہل فوجی ڈکٹیٹروں کو نہ صرف ملک کے بادشاہ کے طورپراپنے عدالتی فیصلوں میں تسلیم کیا جاتا رہا بلکہ بطور فوج کے سربراہ ان کے جاری کردہ عبوری آئینی احکامات پر بھی حلف اٹھائے جاتے رہے۔ ملک کی باوردی بادشاہت تو کیا ایسے طالع آزما بادشاہ گر جرنیلوں کو آج تک کسی عدالت نے نااہل قرار نہیں دیا۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ستر سال کی تاریخ میں آج تک مختلف حوالوں سے جو بادشاہ گری کی گئی ، اس کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔اگر آئین ، قانون اور سیاسی جماعتوں کے آئین کو نظر انداز کر کے فرد واحد کو سامنے رکھ کر زمینی حقائق پر ہی فیصلے ہونے ہیں تو پھر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں نواز شریف جیسے سیاستدان اگر بادشاہ گر ہوتے تو آج وہ سڑکوں پر نہ ہوتے۔
بادشاہ گر کون؟
Mar 04, 2018