چوہدری محمد اقبال گوجرانوالہ سے سدا بہار سیاستدان ہیں۔ ساون میں بھی ہرے اور بھادوں میں بھی ہرے ۔ تگڑے اتنے کہ انکے ہائی وے کی زمین پر بنائے ہوئے پٹرول پمپ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے ایک ڈپٹی کمشنر کو’’ ضلع بدری ‘‘کا حکم نامہ مل گیا تھا۔ اب سنا ہے کہ اس کے بعد آنے والے سبھی ڈپٹی کمشنرز اس پٹرول پمپ سے منہ پھیر کر گزرتے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ کوئی انہیں اس پٹرول پمپ کو دیکھتا ہوا دیکھ لے اور پھر لینے کے دینے پڑ جائیں۔ موصوف 1985سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کالم نگار نے ایک مرتبہ انہیں پوچھا ۔ آپ اتنے عرصے سے حکومتوں میں ہیں، کبھی اُدھرعام آدمی کے مسائل بھی ڈسکس ہوئے ہیں؟ آدمی اکل کھرے ہیں اور بہادر بھی ۔ فوراً بولے ۔ نہیں کبھی نہیں۔ وہاں صرف آئندہ الیکشن اور اپنے اپنے حلقے کا ذکر اذکار رہتا ہے ۔ بادشاہت اچھی ہے ۔ جو ایک مرتبہ تخت پر بیٹھ گیا سو بیٹھ گیا۔ اُسے تخت سے صرف موت ہی اتار سکتی ہے ۔ جمہوریت میں ہر چار پانچ سال بعد تخت یا تختہ ہوتا رہتا ہے ۔ہندوستان کے ڈاکٹر راحت اندوری اپنے مزے میں لت پت لہجے میں شعر پڑھتے ہیں۔ لیکن اپنے ایک شعر میں انہوں نے ہندو سیاستدان کی گندی ذہنیت آشکار کر کے بہت بدمزہ کیا۔ انکے اس شعر میں سوال بھی ہے اور جواب بھی :
؎سرحدوں پر بہت تنائو ہے کیا ؟
کچھ پتہ تو کرو چنائو ہے کیا؟
لو اور سن لو۔ ایک نئی سیاسی ترکیب سامنے آگئی۔ یہ ہے جنگ برائے الیکشن ۔یعنی الیکشن جیتنے کیلئے سرحدوں پر جنگ۔ یہ مودی فلسفہ سیاست ہے ۔ ساحر لدھیانوی نے برسوں پہلے یہی رونا رویا تھا۔
؎بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہوجائیں
اب بھارتی دارلحکومت دلّی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجری وال بھی مودی سے یہی سوال پوچھ رہے ہیں۔تین سو سیٹوں کیلئے اور کتنے فوجی جوان مروائو گے؟ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1965ء میں جنگ ہوئی ، پھر اسکے بعد معاہدہ تاشقند ۔غالباً معاہدہ تاشقند کی پہلی سالگرہ تھی ۔یہ ٹیلی ویژن کا زمانہ نہیں تھا۔ اگرچہ ہندوستان میں 15ستمبر1959اور پاکستان میں 26نومبر1964سے ٹی وی نشریات شروع ہو چکی تھیں، پھر بھی یہ ریڈیو کا زمانہ تھا۔ ایسے میں اعلان ہوا کہ آل انڈیا ریڈیو سے ساحر لدھیانوی اپنی امن کیلئے لکھی نظم ’’ اے شریف انسانو‘‘ سنائیں گے ۔ کالم نگار ان دنوں کالج کا اسٹوڈنٹ تھا۔ شوق و ذوق سے کلام شاعر بزبان شاعر سے مستفید ہوا۔ اس عظیم نظم میں ساحر لدھیانوی نے امن کی بات کی ہے ۔ وہ جنگ کو سیاستدانوں کا خبط قرار دیکر ایک اور طرح کی جنگ لڑنے کی دعوت دیتے ہیں:۔
آئو اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن تہذیب و ارتقاء کیلئے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے
امن انسان کی بقاء کیلئے
جنگ افلاس اور غلامی سے
امن بہتر نظام کی خاطر
جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن بے بس عوام کی خاطر
جنگ سرمایے کے تسلط سے
امن جمہور کی خوشی کیلئے
جنگ جنگوں کے فلسفہ کے خلاف
امن پر امن زندگی کیلئے
ہندوستان آزادی کا وہ حق کشمیریوں کو نہیں دینا چاہتا جسے خود سارے ہندوستانیوں نے ایک لمبی جدو جہد کے بعد انگریزوں سے حاصل کیا تھا۔ کشمیر جل رہا ہے ۔ہندوستان کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیںد ینا چاہتا۔ جس کا نہرو کے ہندوستان نے اقوام متحدہ میں وعدہ کیا تھا۔ ہندوستان کشمیر کو آزاد نہیں کرنا چاہتا۔مودی کوسچائی اور امن نہیں صرف اپنی سیاست عزیز ہے ۔ اس نے اپنی سیاست کیلئے بر صغیر کو جنگ کی آگ میں جھونکنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ پھر معاملہ ایٹمی جنگ تک پہنچ گیا ۔ پاکستان نے ہندوستان کے دو جہاز مار گرائے ۔ ایک پائلٹ زندہ گرفتار کرلیا ۔ مقبول عام فیصلے کرنے بہت آسان لیکن غیر مقبول مگر دانشمندانہ فیصلے بہت مشکل ہوتے ہیں۔ برصغیر میں قیام امن کیلئے ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کا فیصلہ بہت مشکل اور بڑا فیصلہ تھا۔ اسے عمران خان جیسا بڑا لیڈر ہی کر سکتا تھا۔ عمران خان نے قومی مفاد میں فیصلہ کرتے ہوئے اپنی مقبولیت بھی دائو پر لگا دی ۔ایک سیاستدان کیلئے ایسا فیصلہ بہت مشکل ہوتا ہے ۔ ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کے حکمران عمران خان کے اس دانشمندانہ فیصلہ میں شاعر ساحر لدھیانوی کے امن کیلئے دیکھے پچاس برس پہلے خواب کی تعبیر موجود ہے ۔ سرائیکی بیلٹ سے ایک علم فضل والے بڑے انسان ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی وال پر لکھا۔’’علی الصبح ڈاکٹر یوسف خشک نے پیغام بھیجا کہ میں نے نوبل امن انعام کیلئے عمران خان کا نام تجویز کیا ہے ۔ میں نے دیئے گئے لنک پر دستخط کر دیئے اور کچھ لوگوں کو بھی بالواسطہ تجویز کیا کہ ماجرا خوشامد یا سیاست کا نہیں ، پاکستان کے وقار کو بڑھانے کا ہے ‘‘۔ کالم نگار بھی دستخط کرنے کیلئے یہ لنک ڈھونڈ رہا ہے ۔