بھارت کو یقین تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بغیر پاکستان اس کی روایتی حوالوں سے ’’برتر‘‘ نظر آتی فضائی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔گزشتہ بدھ کی صبح اس کا یہ زعم خام خیالی ثابت ہوا۔پاکستانی سرحد کے اندر گھسا مگ طیارہ مارگرایا گیا۔اس کا پائلٹ گرفتار ہوگیا۔
بھارتی زعم کو مؤثر انداز میں جھٹلانے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے گرفتار ہوئے پائلٹ کی رہائی کا حکم دیا۔اس حکم کو انہوں نے خطے میں امن کی خواہش کا اظہار بتایا۔ نظر بظاہر پائلٹ کی رہائی پاکستان کی جانب سے خیرسگالی کا یک طرفہ پیغام تھا۔
بھارتی پائلٹ کو اپنے وطن لوٹے مگر اب تین دن گزرچکے ہیں۔مودی سرکار نے جواب میں ابھی تک کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا ہے۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر وحشیانہ بمباری میں بلکہ مزید شدت آگئی ۔ عام شہری بھی اس کی زد میں آنا شروع ہوگئے ۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کے بعد مودی سرکار پاک- بھارت کشیدگی میں مزید اضافے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھی۔ جمعرات کی سہ پہر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے بھارت کی جانب سے میزائلوں کے ممکنہ استعمال کا انکشاف کیا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم کو فون کے ذریعے انہوں نے مزید کشیدگی پھیلانے سے روکنے کی کوشش کی۔ مودی نے فون لینے سے انکار کردیا۔ یقینا اس کے بعد دیگر عالمی رہ نمائوں سے رابطے ہوئے۔
ان رابطوں کی بدولت ہی عمران خان کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے قبل امریکی صدر عالمی میڈیا کے روبروآگیا۔ ٹرمپ نے بہت اعتماد سے دنیا کو یقین دلایا کہ اسے جنوبی ایشیاء سے اب ’’اچھی خبریں‘‘ آرہی ہیں۔ اس کی حکومت نے ’’اچھی خبر‘‘ کا بندوبست کیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم کوامریکی صدر کی جانب سے ’’اچھی خبر‘‘ کے اہتمام کا یہ دعویٰ ہضم نہیں ہورہا۔ اپنے ملک میں عام انتخابات سے دو ماہ قبل وہ بھارتی عوام کو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ اس نے میزائل حملوں کی تڑی لگاکر اپنے پائلٹ کی رہائی کو یقینی بنایا تھا۔ پاکستان نے ’’گھبرا‘‘ کرپائلٹ کو رہا کردیا۔ وہ ’’جیت ‘‘گیا۔
ٹرمپ کے بیان نے مگر اسے یہ بڑھک لگانے کا موقع نہ دیا۔اسے سمجھ نہیں آرہی کہ بھارتی عوام کو اب کیسے یقین دلائے کہ پاکستان اس کے ’’ڈر‘‘ سے بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے پر ’’مجبور‘‘ ہوا۔ اپنی خفت ہی کی وجہ سے وہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ سے ہفتے کے روز ملاقات کے لئے تیار نہیں ہوا۔
یہ دورہ ’’مؤخر ‘‘ کردیا گیا ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ سعودی وزیر خارجہ پہلے سے طے ہوئی ملاقات کے ذریعے بھارت سے چند مثبت یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد پاکستان آنا چاہ رہے تھے۔ طے شدہ ملاقات ہو نہ پائی۔ پاک-بھارت کشیدگی ایک خطرناک Stalemateکی صورت اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس میں کمی (De-Escalation)لانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔
سادہ انداز میں دیکھیں تو کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ نے وقت سے پہلے بیان دے کرمعاملات کو بگاڑدیا۔ ٹرمپ مگر یہ بیان دینے کو اس لئے بھی مجبور ہوا کیونکہ ہنوئی میں اس کی شمالی کوریا کے صدر سے ملاقات کوئی ڈرامائی خبر نہ دے پائی۔ شمالی کوریا کے صدر نے اپنے ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا۔
امریکی صدر اپنے عوام کو تسلسل سے یقین دلارہا تھا کہ وہ اپنی ’’مسحورکن‘‘ شخصیت اور کامیاب کاروباری افراد سے مختصDeal Makingصلاحیتوں کے ذریعے شمالی کوریا کے صدر کو کسی ڈرامائی سمجھوتے کے لئے قائل کردے گا۔ ناکام رہا۔
ناکامی کی خفت ٹرمپ کو بھی لاحق ہے۔ شاید اسی خفت سے توجہ ہٹانے کے لئے وہ یہ تاثر دینے کو مجبور ہوا کہ ہنوئی سے کوئی ’’اچھی خبر‘‘ حاصل کرنے میں ناکامی کے باوجود اس نے جنوبی ایشیاء میں اپنے ملک کا اثردکھادیا ہے۔پاک -بھارت کشیدگی کو ایٹمی جنگ کی جانب بڑھنے سے روک دیا۔
منطقی انداز میں سوچیں تو ٹرمپ نے وقت سے پہلے کوریا کے بجائے جنوبی ایشیاء کے حوالے سے ’’اچھی خبر‘‘ دیتے ہوئے فقط نریندر مودی کی بڑھک بازی ہی کو نہیںروکا۔ عمران خان کے پاکستان کی پارلیمان سے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے چند گھنٹے قبل ’’اچھی خبر‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے اس نے دُنیا کو یہ باور بھی کروانا چاہا کہ پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو ’’ازخود‘‘ امن کا قیام دینے کی خاطر یک طرفہ انداز میں رہا نہیں کیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی کوششوں کی بدولت ہوا۔
پاکستان کو اس کے بار ے میں خفا ہونے کی مگر ضرورت نہیں۔کئی برسوں سے ہم نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جنوبی ایشیاء میں دائمی امن محض پاک-بھارت مذاکرات کے ذریعے یقینی بنایاہی نہیں جاسکتا۔ کسی ’’تیسری قوت‘‘ کو خواہ وہ امریکہ ہو یا اقوامِ متحدہ مداخلت کرنا ہوگی۔
بھارت ’’شملہ معاہدے‘‘ کے بعد کسی ’’تیسری قوت‘‘ کی مداخلت کو شدت سے رد کرنے کی ضد میں مبتلا رہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ حقیقت بھول جاتا ہے کہ کارگل بحران نے 1999ء ہی میں ’’تیسری قوت‘‘ کی اہمیت اجاگرکردی تھی۔ 4جولائی 1999ء کے روز اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی امریکی صدر کلنٹن سے ملاقات نہ ہوتی تو کارگل بحران کا خاتمہ ناممکن تھا۔ 1999ء میں کلنٹن کی مداخلت کو دل وجان سے قبول کرلینے کے بعد بھارتی قیادت کو اب ’’تیسری قوت‘‘ کی مداخلت کے بارے میں چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے۔
مان لینا چاہیے کہ گزشتہ بدھ کی رات وہ میزائلوں کے استعمال سے پاک-بھارت کشیدگی کو ایک بالاتر مقام تک لے جانے میں ناکام رہا۔ امریکہ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مشترکہ کاوشوں کی بدولت اسے میزائل استعمال کرنے کی خواہش سے گریز کرنا پڑا۔
بھارتی پائلٹ کی رہائی کے ذریعے ہم نے ’’تیسری قوت‘‘ کی بات مان لی ہے۔ ’’تیسری قوت‘‘ کو اب بھارت سے بھی ہماری تسلی کے لئے کچھ حاصل کرنا ہے۔بھارت ’’تیسری قوت‘‘ کی خواہشات کو زیادہ دیر تک نظرانداز نہیں کرسکتا۔محض اپنی فوجی قوت کے اظہار سے مودی عام انتخابات سے قبل جو حاصل کرنا چاہ رہا تھا وہ میسر نہیں ہوا۔
اس خطے میں دائمی امن کی خاطر ضروری ہے کہ حقائق کو خواہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں بردباری کے ساتھ تسلیم کرلیا جائے۔ ’’تیسری قوت‘‘ کی مداخلت کے بغیر جنوبی ایشیاء میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ گزشتہ ہفتے کے ٹھوس واقعات نے یہ حقیقت ایک بار پھر عیاں کردی ہے۔
’’تیسری قوت‘‘ کی مداخلت
Mar 04, 2019