چالاک بچے

بڑے تو رہے ایک طرف، اَب تو شیر خوار بچے بھی سمارٹ فون کے رسیا ہو چکے اور یہ وباء دنیا بھر میں تیزی سے پھیلی ہے۔ فیڈر پیتے بچے TV میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ ماں باپ ان کے لیے ثانوی مخلوق بن چکے۔ نوبت بہ اینجار سید کہ دو برس کا بچہ سمارٹ فن بہ آسانی آپریٹ کر لیتا ہے۔ اور اس عمل میں رکاوٹ ڈالی جائے، تو ناراض ہو کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔
دنیا بھر کے سیانے بچوں کو اس اڈِکشن سے نکالنے کے لیے نت نئے جتن کرتے رہتے ہیں۔ انڈونیشیا کے شہر نیڈولنگ میں کنڈر گارٹن کے بچوں کو پنجروں میں بند خوبصورت چوزے تقسیم کئے گئے، کہ ان کو پالیں اور ان کے ساتھ کھیلیں۔ ہفتہ بھرمیں تقریباً سبھی بچوں نے چوزوں کواٹھا باہر پھیکا تھا اور اکثر کو شکایت تھی کہ یہ گانا گاتے ہیں اور نہ کہانی سناتے ہیں۔ اس پروگرام کے منتظمین بیچارے نہیں جانتے تھے کہ اس عہد کے بچے چالاک ہو چکے۔
٭…٭…٭

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن