لاہور(اپنے نامہ نگار سے‘ نوائے وقت رپورٹ) لاہور ہائیکورٹ نے عورت مارچ کے حوالے سے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق عورت مارچ کو روکا نہیں جا سکتا، ضلعی انتظامیہ عورت مارچ کی اجازت سے متعلق درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے، منتظمین اور شرکاء آئین و قانون کے اندر رہ کر عورت مارچ کریں ، نفرت انگیز تقاریر اور سلوگن نہیں ہونے چاہئیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مامون رشید شیخ نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی۔ پولیس نے تحریری جواب عدالت میں جمع کرا دیا۔ جس میں کہا گیا کہ سول سوسائٹی کے شرکاء کے اعتراضات سنے ہیں، عورت مارچ پر کسی کو اعتراض نہیں صرف طریق کار پر تحفظات ہیں۔ مال روڈ پر احتجاج پر مکمل پابندی عائد ہے، مارچ میں استعمال ہونے والے بینرز اور سلوگن پر لوگوں کواعتراضات ہیں، پولیس کی جانب سے عورت مارچ کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ درخواست گزار نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی عورت مارچ رکوانے کا نہیں کہا ۔ جس پر خواتین کی وکیل نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں خود لکھا ہے کہ عورت مارچ ریاست مخالف اقدام ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ جو جہاں عورت مارچ کا کیس لڑ رہے ہیں یہ می ٹو مہم کے بھی وکیل ہیں۔ خواتین ہمارے معاشرے کا حسن ہیں لیکن میرا جسم میری مرضی کی باتیں ہوتی ہیں۔ عورت مارچ قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے۔ دنیا میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان میں خواتین کو دبا کر رکھا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عورتوں کے حقوق پرکوئی دوسری رائے نہیں ہے لیکن اس وقت یہاں معاملہ عورت مارچ کا ہے ، عورت مارچ کے آرگنائزرزکی ذمہ داری ہے کہ غیر اخلاقی سلوگن نہیں چاہئیں۔ غیر اخلاقی سلوگن اچھی بات نہیں۔ خواتین کے وکیل نے کہا کہ ہم گارنٹی دینے کو تیار ہیں کہ قانون و آئین کے برعکس کوئی اقدام نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عورت مارچ میں کتنے لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ خواتین کے وکیل نے بتایا کہ تقریباً4 سے 5 ہزار لوگ عورت مارچ میں شرکت کریں گے، عورت مارچ میں مرد و خواتین اور ٹرانسجینڈر شرکت کریں گے۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کو عورت مارچ کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں، عورت مارچ کے منتظمین اور شرکاء آئین و قانون کے اندر رہ کہ عورت مارچ کریں۔