آصف زرداری کو سلام!!!!!

سینٹ انتخابات میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو کامیابی مبارک ہو، آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست کو سلام۔ میں نے کل لکھا تھا کہ یوسف رضا گیلانی الیکشن نہیں جیت سکیں گے لیکن وہ جیت گئے میرا تجزیہ غلط ثابت ہوا۔ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں اور یوسف رضا گیلانی کو مبارک دیتا ہوں۔ کون کہاں جیتا کہاں ہارا، کون کیسے جیتا، کسے کیسے ہرایا گیا، نتائج آنے کے بعد یہ سب چیزیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے اور جیتنے والے کو مبارک دینی چاہیے۔ آپ جس نظام حکومت کا حصہ ہیں اسے خوبیوں خامیوں سمیت اپنا رکھا ہے تو پھر اس میں جو طریقہ جیتنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ یا کوئی بھی امیدوار فتح کے لیے جو بھی راستہ اپنائے اسے کوئی کیسے روک سکتا ہے۔ امیدوار کا حق ہے کہ وہ اپنے وسائل کو جیت کے لیے استعمال کرے۔ اگر وہ دھونس اور دھاندلی کر سکتا ہے وہ کرے، اگر پیسہ استعمال کر سکتا ہے تو وہ کرے۔ کوئی بھی امیدوار انتخابی عمل کا  حصہ کامیابی کے لیے بنتا ہے پھر وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز راستہ اختیار کرتا ہے اسے کوئی روک ٹوک نہیں۔ یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے اور شاید یہی ہمارا سیاسی مستقبل بھی ہے۔ اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔
فی الحال آپ کے سامنے سینٹ کی سب سے اہم سیٹ جس پر سب نے اپنا اپنا زور لگایا یعنی یوسف رضا گیلانی بمقابلہ حفیظ شیخ اس کے نتائج آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جنرل نشست پر یوسف رضا گیلانی کو کامیابی ملی۔کاسٹ ہونے والے 340 ووٹوں میں سے یوسف رضا گیلانی نے 169 جبکہ حفیظ شیخ نے ایک سو چونسٹھ ووٹ حاصل کیے۔ یوں  یوسف رضا گیلانی حفیظ شیخ کو پانچ ووٹوں سے شکست دے کر اسلام آباد سے سینیٹر منتخب ہوگئے۔ یہاں سات ووٹ مسترد بھی ہوئے۔ حکومت کی جانب سے دوبارہ گنتی کرائی گئی تاہم دوبارہ گنتی میں بھی یوسف رضا گیلانی کامیاب قرار پائے۔
اس کامیابی پر اپوزیشن بہت خوش ہے اور انہیں ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ ان کے لیے بڑی کامیابی ہے اور اپوزیشن اتحاد نے حکومتی اتحاد کو شکست دی ہے۔ اس کامیابی پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ سینٹ الیکشن میں حکومت کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور حکومت کی اس ناکامی میں سابق صدر آصف علی زرداری کا کردار نہایت اہم ہے۔ انہوں نے اس نفرت، تشدد اور سیاسی افراتفری کے دور میں جس طرح لوگوں کو ساتھ ملا کر، مختلف خیالات کے حامل افراد کو اکٹھا کر کے سینیٹ الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے یہ ان کی سیاسی سمجھ بوجھ اور جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنے دور حکومت میں بھی انہوں نے مفاہمتی عمل جاری رکھا اور آج اس دور زبان درازی میں بھی آصف زرداری تحمل، برداشت اور اتفاق کی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی کامیابی میں سب سے اہم کردار آصف علی زرداری کا ہے۔ پنجاب میں یہ کام چودھری پرویز الٰہی نے بخوبی کیا ہے۔ اب حکومت اپنی ناکامی اور اپوزیشن کی کامیابی پر کچھ بھی کہتی رہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اب بندے گننے میں اپوزیشن نے برتری حاصل کی ہے تو اسے کامیابی مل گئی ہے۔ حکومت کو اپنی کارکردگی کی طرف توجہ دینی چاہیے تھی۔اڑھائی سال میں نعروں، الزامات، تکرار اور غلط فیصلوں کے سوا اگر کچھ کیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ عام آدمی کی زندگی مشکل ہوتی چلی گئی ہے اور ان مخالف عوامی جذبات کا حکومت کی ناکامی میں اہم کردار ہے۔ بہر حال اب ایک بات تو سامنے ہے کہ اگر اپوزیشن مقتدر حلقوں پر الزام عائد کرتی تھی کہ وہاں سے حکومت کو غیر ضروری حمایت حاصل ہے تو ان نتائج کے بعد اس بیانیے کی نفی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اب پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ صرف کارکردگی کی بنیاد پر حکومت کر رہی ہے۔ کہیں سے بھی غیر ضروری حمایت یا جانبداری کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ ثابت کرنا اب حکومت کی ذمہ داری ہے۔
یوسف رضا گیلانی ملک کے سابق وزیراعظم رہے ہیں، تجربہ کار سیاستدان ہیں انتخابات سے ایک دن پہلے ان کے بیٹے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی لیکن یہ سب باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں کیونکہ جس قسم کا ہمارا نظام ہے اس میں ایک مرتبہ کامیابی کا اعلان ہونے کے بعد بہت سی جائز چیزیں بھی چھپ جاتی ہیں۔ وزراء کی جانب سے عذر پیش کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ وزراء  سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنی وزارتوں کی کارکردگی بھی بتائیں کیونکہ یہ سارا کیا دھرا ان کی نالائقیوں کا ہی ہے۔ سینٹ انتخابات کے بعد ایوانِ بالا میں حکومتی اتحاد کو برتری حاصل ہو گئی ہے۔ سو ارکان کے ایوان بالا میں اپوزیشن اتحاد حکومتی اتحاد پر بھاری نظر آتا ہے اور اسے حکومتی اتحاد پر چھ ارکان کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔سینٹ میں اب اپوزیشن اتحاد کے ارکان کی تعداد ترپن ہوگئی ہے جب کہ حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد سینتالیس ہے۔ یہ نمبرز اپوزیشن کی کامیابی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پر سابق صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ پانچ ووٹوں کی جیت کم ہے ہماری جیت بیس ووٹوں کی ہونا چاہیے تھی جو کہ نہیں ہوئی ہے۔ اگر اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں تو ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں، بسم اللہ کریں اسمبلیاں توڑ دیں۔
سینٹ انتخابات کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ اب یہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا بھی امتحان ہے کہ وہ اپنی برتری ثابت کرے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ پارٹی اور وزیراعظم عمران خان کا فیصلہ ہے کہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ یہ فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے اس عمل سے واضح ہوجائے گا کون کہاں کھڑا ہے۔ یہ دن جمہوریت کیلئے افسوس کا دن ہے۔ جمہوریت کے علمبرداروں نے جمہوری قدروں کو روندا ہے۔ وزیر خارجہ یہ اس لیے کہہ رہے کیونکہ ووٹوں میں ہیر پھیر ہوا ہے۔ وہی ہیر پھیر جو ہر انتخابی عمل میں ہوتا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کو قومی اسمبلی میں ایک سو ساٹھ اراکین کی حمایت حاصل تھی لیکن  یوسف رضا گیلانی کو ایک سو انہتر ووٹ ملے نو  اضافی ووٹ گیلانی صاحب کو کیسے مل گئے۔حکومت کے سولہ ووٹ کہاں غائب ہو گئے۔حکومت کو سادہ اکثریت کے لیے ایک سو بہتر ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا حکومت سادہ اکثریت کھو چکی ہے۔ سابق وزیر اعظم  یوسف رضا گیلانی کی سینٹ میں کامیابی نے کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ حکومت کے لیے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ اعتماد کا ووٹ ایک نیا مرحلہ ہے۔ سینٹ انتخابات کے نتائج نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ آنے والے دنوں میں دیکھنا یہ ہے کہ جوڑ توڑ کیا رنگ لاتا ہے۔ حمزہ شہباز کے باہر آنے کے بعد شہباز شریف کی آزادی کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے لیے سیاست میں کشش پیدا ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کا حوصلہ بھی بڑھا ہے اور وہ حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...