بھارت، انتہا پسندی کی آگ الاؤ میں 

مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کے حوالے سے بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ سے مجبور ہو کر مودی سرکار نے چند یورپی ممالک کے سفیروں کو سرینگر کا دورہ کرایا جو حقائق جاننے کی بجائے محض سیر و تفریح اس لئے ثا بت ہوا کیونکہ ان سفیروں کو عام شہریوں تو کیا انسانی حقوق کی تنظیم کے عہدیداروں اور حریت لیڈروں سے بھی نہیں ملوایا گیا۔ اس لئے بادی النظر میں یورپی سفیروں کا یہ دورہ مودی سرکار کیلئے کسی پریشانی کا باعث نہیں بنا۔ لیکن واقعتا ایسا نہیں ہے ۔ اس دورے کے حوالے سے مودی سرکار کیلئے پریشانی اور تشویش کا سامان اس لئے تھا کہ بھارت میں برطانیہ کے سفیر الیگنڈر ایلس نے اس وفد میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ اب مودی سرکار سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ برطانوی سفیر تنہا سری نگر کا دوری کر کے بھارت کے حق میں کوئی بیان دے دے مگر تادم تحریر ناکامی کا سامنا ہے۔ برطانوی سفیر کے سرینگر نہ جانے کی یہ وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ برطانوی حکومت سمجھتی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی سرکار کی جانب سے کی جانے والی تبدیلیوں پر کئی اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔ ساری دنیا میں کشمیر کے حالات پر مودی سرکار سے ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اگر برطانوی سفیر سرینگر کا دورہ کرتے ہیں تو اس سے خود برطانیہ کے اندر غلط پیغام جائے گا۔ دیگر ممالک میں کشمیر کے حوالے سے تشویش پائی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر کے حالات پر باقاعدہ بحث ہو چکی ہے۔ ایشیائی امور نائجل آدمس نے برطانیہ کی سرکاری پالیسی کا اعادہ کیا کہ کشمیر، پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت کو مل کر حل کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں برطانوی سفیر نے آزاد کشمیر اور گلگت کا دورہ کیا ۔ انہیں کسی بھی شخص ، لیڈر اورانسانی حقوق تنظیم کے عہدیدار سے ملنے کی عملاً آزادی تھی۔ جس کا انہوں نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے۔ سرینگر کا دورہ کرنے والے سفیروں میں اٹلی، فرانس، پرتگال، نیدرلینڈ، سویڈن اور سپین کے سفیر شامل تھے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کے اعصاب پر پاکستان کس بری طرح سوال ہے اس کا اندازہ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شا کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے ۔ بنگال میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب میں امیت شا نے کہا ’جے شری رام ‘ کا نعرہ بنگال میں نہیں تو کیا پاکستان میں لگے گا۔ بھارت میں صوبوں کے الیکشن ہوں یا مرکزی الیکشن ، یعنی لوک سبھا کے الیکشن ہوں ، بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریاسیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لیڈروں کی تقاریر میں پاکستان کا لفظ ضرور شامل ہوتا ہے۔ 2014 کے الیکشن میں نیشنلزم اور پاکستان کا ایشو اٹھا یا گیا پھر 2019 میں لوک سبھا کے انتخابات میں پاکستان کا نام زور و شور سے اٹھایا گیا۔ 2020 میں بہار میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان کا نام لیا گیا۔ 2017 میں سرجیکل سٹرائیک اور پاکستان کا نام آیا۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں بھی پاکستان کے خلاف مخالفانہ تقریروں سے ذریعے ووٹ حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ 
ادھر رام مندر کے نام پر زبر دستی چندہ کو کھلی بھتہ خوری کہا جا رہا ہے جس طرح کسی دور میں کراچی میں ایم کیو ایم کی جانب سے الطاف حسین کیلئے جبری چندہ وصولی کرتے تھے۔ بھارت میں جبری چندہ کے خلاف ہندوئوں کی جانب سے مزاحمت کی جا رہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے چندہ دینے سے انکار کیا تو ان کے گھروں پر نشان لگا کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ کمار سوائی نے کہا کہ رام مندر کیلئے چندہ نہ دینے پر انہیں بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ایک گروپ ان کے گھر آیا اور چندہ طلب کیا گیا۔ انکار پر دھمکی دی گئی کہ اچھا نہیں ہوگا۔ چندہ وصولی میں شفافیت نہیں ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ ایسے گروپوں کو کس نے چندہ جمع کرنے کا اختیار دیا ہے اور یہ چندہ کی رقم کس اکائونٹ میں جائے گی۔ اس طرح سابق وزیر اعلیٰ سی پی نے کہا کہ بی جے پی رام مندر کو سیاسی حربہ کے طورپر استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے خود چندہ دینے سے انکار کرتے ہوئے رام مندر ٹرسٹ سے چندہ کی تفصیلات ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ چندہ اس لئے نہیں کیا کیونکہ رام مندر کو متنازعہ سمجھتے ہیں۔ کسی اور جگہ مندر تعمیرہو تو وہ ضرور چندہ دیں گے۔ یاد رہے اپنے خیالات اور رام مندر کے لئے چندہ نہ دینے پر بی جے پی کے انتہا پسند لیڈر انہیں ملحد قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے مسلسل مطالبات کے باوجود رام مندر کیلئے 1990 میں جمع شدہ کروڑوں روپے کا چندہ کا حساب کتاب نہیں دیا جار ہا۔ 
بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے سیاسی ونگ بی جے پی کی نریندر مودی کی سربراہی میں حکومت قائم ہونے کے بعد سیاسی مقاصد کیلئے ہند وتعصب اور اسلام سے نفرت کی جو آگ لگائی گئی تھی وہ بھارت کو بری طرح لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اس ہندو انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ بھارتی اداکارہ کرینہ کپور کے دوسرے بیٹے کی پیدائش پر بھی واویلا شروع ہو گیا ہے جبکہ ان عقل کے اندھوںکو سمجھ آنی چاہیے جس عورت نے شادی کی اورپہلے ایک بچے کو جنم دیا وہ دوسرا بچہ بھی جنم دے سکتی ہے۔ لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی وہ محض کرینہ کپور کے دوسرے بچے کی پیدائش نہیں بلکہ یہ کہ اس بچے کا باپ مسلمان کیوں ہے اور پہلے بچے کا نام تیمور کیوں رکھا گیا تھا۔ اب دوسرا نوزائیدہ بچہ ان کا ہدف بنا ہوا ہے اور طنزیہ تضحیک آمیز اور تمسخرانہ انداز میں اس کا ذکر کیا جار ہا ہے اور اس کیلئے مسلمان ہیروز کے نام تجویز کیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے 2016 میں پہلے بیٹے کا نام تیمور رکھنے پر بھی پورے بھارت میں ان انتہا پسندوں نے سیاپا پیٹا تھا ۔ اسے دہشت گرد اور مغلوں کی اولاد قرار دیا تھا۔ یاد رہے امیر تیمور ماورا النہر کا بادشادہ تھا جسے تیمور لنگ کے نام سے بھی یاد کیا جا تا ہے۔ ا س نے نصف دنیا میں فتوحات حاصل کیں اور اپنی بادشاہت کے آخری دور میں دہلی کو تاراج کیا تھا۔ جب کرینہ کپور اور سیف علی خان کے بیٹے کا نام تیمور علی خان رکھا گیا تب اس طرح کا طوفان اٹھا تھا۔ 
اب بھارتی سوشل میڈیا میں کرینہ کپور اور سیف علی خان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بچے کا نام ظہیر الدین بابر ، شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر ، اسامہ بن لادن یا ٹیپو سلطان رکھ لیں۔ بھارتی صحافی دھیرج کمار نے کہا ہے کہ جب کرینہ کپور حاملہ تھی اس سے سوال کیا گیا تو اس نے کہا تھا کہ بچے کی پیدائش کے بعد نام کے بارے میں سوچیں گے۔ چنانچہ کرینہ کپور کے اس بیان کو بنیاد بنا کر طنزیہ انداز میں نام پیش کئے جا رہے ہیں۔ تاہم بھارتی فلم انڈسٹری کی جانب سے کرینہ کپور اور سیف علی خان کو مبارک باد پیش کی گئی ہے۔ یاد رہے ان دونوں کی شادی کے موقع پر بھی بھارت کے انتہا پسند لیڈروں نے اسی طرح کا واویلا کیا تھا اور اگر وہ دونوں معروف افراد میں شامل نہ ہوتے تو ان دونوں کے خلاف بالخصوص سیف علی خان کے خلاف LOVE JEHAAD (لو جہاد) کا مقدمہ درج کرادیا جاتا۔ ایک ہندو اکاؤنٹ میں لکھا گیا ہے کرینہ کپور اور سیف علی خان اولاد نرینہ سے نوازے گئے ہیں۔ تیمور کہتا ہوگا ’’میرا بھائی ظہیر الدین بابر یا اورنگ زیب آگیا ہے‘‘ ایک صارف نے غصہ اگلتی آنکھوں والی اورنگ زیب عالمگیر کی تصویر پوسٹ کی اور ساتھ لکھا، یہ ڈر مجھے اچھا لگا ہے۔ 
مودی سرکار کے آنے کے بعد بھارت میں مسلمان دشمنی باقاعدہ ریاستی پالیسی کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ملک بھر میں بالخصوص ان ریاستوں یا صوبوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ، سڑکوں، عمارتوں، شہروں اور ریلوے سٹیشنوں کے مسلم نام تبدیل کئے گئے ۔ اسی طرح تعلیمی نصاب میں مسلمان بادشاہوں کو ولن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک صارف نے تحریر کیا ’ذرا بتائے تو اس نئے دہشت گرد کا نام کیا ہوگا، اسامہ بن لادن، اجمل قصاب یا کچھ اور ‘ دریں اثنا پٹودی خاندان نے درجنوں کے حساب سے سادہ لبا س میں پولیس سیکورٹی اہلکار اور پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کا بندوبست اس خطرے کے پیش نظر کیا ہے کہ خاندان کے کسی فرد کو جسمانی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن