ٹرمپ سر یو آر گریٹ

آج اچانک جب ڈسکہ کے الیکشن میں دوآدمیوں کی مارے جانے کی خبر آئی ، تو میں پریشان ہوا کہ یہ الیکشن ہے یا قتل وغارت کا میدان ہے جہاں ڈنڈے سوٹے ، گولیاں فائئرنگ ہورہی ہے ایسے جیسے کوئی دشمن کا قلعہ فتح کیا جانا ہو۔ تو مجھے جمہوریت کے علمبردار امریکا بہادر کی قومی اسمبلی اور سینٹ کی وہ کیپیٹل ہل (یہ بتاتا چلوں کہ کیپیٹل کا مطلب دارالحکومت ہوتا ہے اور ہل کا مطلب چوٹی یا پہاڑی ہے ، امریکی دارالحکومت کی پہاڑی یعنی امریکی دارالحکوحکومت کا سب سے اونچا مقام) والی ویڈیو یاد آگئی جب امریکی اپنی ہی قومی اسمبلی پر ڈنڈوں ، لاٹھیوں سے حملہ آور ہوگئے اور چار امریکی مارے گئے جن میں انکے پولیس والے بھی شامل تھے اور یہ سب کچھ ، محترم جناب ٹرمپ کے خطاب یا پرداخت کے بعد ہوا جب کہ اندر گنتی ہو رہی تھی اور ٹرمپ اس کو کچھ لوگوں کی سازش قرار دے رہے تھے اور انکے ماتھے پر کوئی گھبراہٹ کی شکن نمودار نہیں ہوئی اور چیں بہ جبیں بھی نہ ہوئے اور کسی چیز کو خاطر میں نہ لائے چہ جائیکہ ان کا موآخذہ یا ان کے خلاف کریمینل کاروائی ہی کیوں نہ کی جائے۔چلیں کبھی تو ثابت ہوا کہ جمہوریت میں تولنا تو کجا، گنا بھی صحیح نہیں جاتا ورنہ نوے فیصد سے زیادہ لٹریسی ریٹ کے ساتھ امریکیوں کو کیا ضرورت تھی کے وہ اپنے ہی اسمبلیوں پر چڑھ دوڑتے، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ، شاید گوروں نے ٹرمپ کا ساتھ صرف گورے ہونے کی وجہ سے دیا تھا کہ جائے بھاڑ میں اسمبلیاں، ٹرمپ کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ انہوں نے سپیکر کی سیٹ پر بیٹھ کر اس کا تمسخر اڑایا اور اس شدید دھکم پیل میں کئی امریکی جان سے چلے گئے۔ ادھر تو سنا ہے کہ جوبائیڈن غریب ہے اور پارٹی فنڈگ سے الیکشن جیتا ہے۔ جبکہ ہمارے جیسے غریب ممالک میں تو کوئی کتنا پڑھا لکھا کیوںنہ ہو، جب تک اسکے پاس پیسے ، ڈنڈا بردار فورس، اسلحہ اور سفارش نہ ہو، وہ کیسے الیکشن لڑنے کی سوچ سکتا ہے۔ تازہ آمدہ اطلاعات کے تحت ، ڈسکہ میںالیکشن کرانے والہ عملہ اگلی صبح تک الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچنے میں کامیاب ہو ا ہے جیسے سینکٹروں میل کا سفر طے کر کے آیا ہو، کہیں محبوس تو نہیں ہو گیا تھا یا عملے کی عورتیں اور مرد خوف کے مارے کہیں روپوش ہوگئے تھے۔ تازہ اطلاعات کے تحت ، رزلٹ روک لئے گئے ہیں ۔ اب شاید دہ بارہ پولنگ ہو گی۔ ہوا نہ جمہوریت کا مزہ یا کر شمہ۔ چلو ہم تو ٹھہرے غریب ان پڑھ، یہاں تو جناب ، ہمارے ٹرمپ صاحب کی بھی نہ سنی گئی ٹرمپ بھی جعلی ووٹنگ کا رونا رو رہے تھے لیکن کس نے تمام ملک میں جعلی ووٹنگ کرائی، کچھ لوگوں یا مخالفین پر ڈال رہے تھے چہ جائیکہ وہ خود صدر تھے ۔ امریکی جو تمام دنیا میں جمہوریت اور بنیادی حقوق کے چیمپئن قرار دئے جاتے ہیں اور ہمیں جمہوریت پر سبق اور لیکچر دیتے ہیں وہ بھی حضور مار دھاڑ پر اتر آئے۔ ہم نے حوصلہ پکڑا ، ڈسکہ اور کیپیٹل ہل کا موازنہ شروع کر دیا، کہاں ڈسکہ اور کہاں واشنگٹن ، کدھر کی بات کدھر چلی گئی کہاں ہم، کہاںامریکا، کہیں سپر طاقت کے حضور کہیں گستاخی تو نہیں ہو رہی ، یقین کریں مجھے ٹرمپ میں رانا ثنا ، عثمان ڈار نظر آنے لگے اور خود سے ڈر لگنے لگا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں کس کیخلاف لکھ گیاہوں ہم تو مگسی ، عافیہ اور رمزی تک تو انکی گستاخیوں کے طفیل امریکا کے خود حوالے کر چکے ہیں۔ کہاں میں اور یہ مسور کی دال۔ میں نے اپنے اسی مضمون کے الفاظ کو کچھ نرم کرنے کچھ بدلنے کا مصمم ارادہ کر لیا کہ بھئی ہے تو حقیقت میں دنیا میں جنگل کا قانون ، کہیں دھر نہ لیا جائوں ایک پنجابی کا محاورہ یاد آیا مگر غلط سا لگا ، ذات دی کوڑ کر لی شتیراں نوں جپھے، پہلے اپنے اندر قومی حمیت تو پیدا کرلیں پھر ہم میں بھی ایران کی طرح اپنے لئے کسی سپر طاقت سے ٹکرانے کا جذبہ پیدا ہوجائے جناب ، ڈر ، اور خوف ہی تو ہے جو ہم غریبوں کو جو غریبوں کے حکمرانوںکو کھائے جا رہا ہے ، ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے ۔ قران حکیم میں ارشاد ہے ہم جیسی قوم ہو اسی طرح کے حکمران پر مسلط کرتے ہیں ، تو ادھر ہمارے عمران نیازی ، ادھر جوزف بائئڈن مائنس ٹرمپ۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے ، گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا چلو یہ تو ہم کو علم ہے کہ وزیرآباد جہاں الیکشن ہو رہا ہے وہیں کے مولانا ظفر علی خان بھی رہنے والے تھے اور ان کاکہنا چاردانگ عالم میں مشہور ہے کہ دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے یا تختہ جگہ آزادی کی یا تخت مقام آزادی کا۔لیکن یہاں تو ایون فیلڈ بھی اغیار کے ہاں اور محترم الطاف حسین ایم کیو ایم فیم، یا براہمداغ بگٹی بھی۔

ای پیپر دی نیشن