چند روز قبل حیرت انگیز طور پر پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ سطحی فوجی افسران کے درمیان کنٹرول لائن (جسے کشمیری سیز فائر لائن کہتے ہیں) کو پرامن رکھنے کے معاہدے کی مکمل پاسداری کا عزم کیا اور سرحدی علاقوں میں بلاجواز فائرنگ اور شہری آبادیوں پر گولہ باری کے واقعات کی روک تھام پر اتفاق کیا گیا۔ یہ سب کچھ فوجی افسران کی میٹنگز میں طے پایا۔ جس کا دونوں ملکوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ سیز فائر لائن پر جنگ کی کیفیت پیدا کرنے میں ہمیشہ بھارت کا ہاتھ رہا ہے۔ اس نے موقع بے موقع اشتعال انگیزی کا ماحول بنائے رکھا۔ زیادہ نہیں تو گزشتہ 5 برس کا ریکارڈ ہی اٹھا کر دیکھ لیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے عملاً سیز فائر لائن کو گرم میدان جنگ بنائے رکھا ۔ روزانہ اس کی طرف سے پاکستانی فوجی مورچوں اور سرحدی آبادیوں کو ہلکے و بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جس کی وجہ سے آئے روز متعدد بے گناہ شہری جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے ، ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ ان آبادیوں کی املاک ، فصلوں اور جانوروں کو بھی بے حد نقصان پہنچا ہے۔ ان کے نقصان کی تلافی کا ذکر ہی بے جا ہے۔ انکی حکومت آزاد کشمیر یا پاکستان کی طرف سے اشک شوئی بھی نہیں ہوتی۔ حالانکہ ان کی بھرپور مالی امداد نقصان کا ازالہ کرنا ان دونوں کا فرض ہے۔ اسکے باوجود سرحدی دیہاتوں میں رہنے والے پاکستان سے بے لوث محبت کرنے والے یہ کشمیری خوفزدہ نہیں۔ وہ بھارتی گولہ باری سے گھبرا کر اپنا گائوں یا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی نہیںکرتے۔ اسی طرح کئی مرتبہ بھارتی گولہ باری سے متعدد فوجی جوان بھی شہید ہوئے ہیں زخمی ہوئے مگر فوجیوں ان کے حوصلے بھی پہاڑوں سے زیادہ بلند ہیں۔ بدترین موسمی حالات میں بھی ملک و قوم یہ کے مجاہد دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مستعد رہتے ہیں۔ یہ نڈر دلیر فوجی بھارتی گولہ باری اور فائرنگ کا منہ توڑ جواب بھی دیتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے بھارت کو جرأت نہیں ہوتی کہ وہ کنٹرول لائن کی حرمت پامال کرے۔ اب بھارتی حکومت نے ایک سال ہونے کو ہیں ریاست جموں و کشمیرکو مکمل طور پر بھارت میں ضم کر لیا ہے۔ وہاں مزید فوجی بھیج کر عملاً ہر 9 کشمیری پر ایک فوجی کو مسلط کر دیا ہے۔ ان فوجیوں کی تعداد اب 9 لاکھ ہو چکی ہے۔ اسکے باوجود وہاں تحریک آزادی دبنے کی بجائے مزید تیز ہوتی نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ 3 ماہ سے روزانہ کی بنیاد پر بھارتی فوجی دو یا تین کشمیریوں کو شہید کر رہی ہے۔ کشمیرمیں عملاً کرفیو نافذ ہے۔ عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں جبری انضمام کیخلاف کوئی آواز بلند نہیں رہی۔ پاکستانی حکومت نے بھی صرف زبانی کلامی زوردار‘ گرجدار بیانات داغ کر سمجھ لیا کہ اس نے کشمیریوں کی وکالت کا حق ادا کر دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے بھی محسوس ہوتا ہے کشمیر پر بھارتی قبضے کو تسلیم کر لیا ہے۔ ورنہ کم از کم عالمی سطح پر اس کیخلاف کوئی مؤثر آواز ہی بلند کی جاتی۔ دوست ممالک مسلم ممالک سب کا طرزعمل ہمارے سامنے ہے۔ وہ بھارت کی محبت اور تجارت کے سامنے بے بس ہیں۔ سب کے بھارت سے اچھے سفارتی تعلقات ہیں۔
ان سے کیا گلہ کرنا خود پاکستان نے اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل میں شور کیوں نہیں مچایا کہ خود ان کی منظور شدہ قراردادوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے منہ پر طمانچہ مارتے ہوئے پورے کشمیر کو ہڑپ کر لیا ہے۔ صرف اخباری بیانات سے بھارت پر کوئی اثر نہیں ہونے والا۔ اب سیز فائر لائن (کنٹرول لائن) کو پرامن‘ ٹھنڈا رکھنے کے معاہدے پر عمل کی خواہش چہ معنی وارد ۔ کیا ہم اپنے لئے لڑنے والے‘ مرنے والے‘ کٹنے والے کشمیریوں کی آہ و بکا اور ان کی پکار پر آنکھیں بند رکھنے‘ کان بند رکھنے کی پالیسی تو نہیں اپنا رہے۔ بہت سے لوگ تو برملا اس صورتحال کو تقسیم کشمیر یعنی ادھر تم ادھر ہم کا بھیانک منصوبہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔ سیز فائر لائن پر امن بہت ضروری ہے مگر کشمیر کی تقسیم کی قیت پر نہیں۔ نہ ہی کوئی کشمیری اسے قبول کریگا۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بلا تنخواہ اس کیلئے لڑنے والے مرنے والے مجاہدوں‘ سپاہیوں کو بے یارومددگار نہ چھوڑے۔ ایسا ہوا تو پوری تحریک آزادی پر اس کے بھیانک اثرات مرتب ہونگے۔ بھارت کی تو خواہش بھی یہی ہے کہ کشمیری پاکستان سے بدظن ہوں اور اس کا مکروہ منصوبہ کامیاب ہو۔ اس لیے پاکستان کومقدمہ کشمیر نئے انداز میں جی جان سے لڑنا ہو گا۔