سیاسی منظرنامے پرنظر ڈالیں تو لگتا ہے بالآخر خرپی ڈٰی ایم حکومت کے ساتھ گتھم گھتا ہونے میںکامیاب ہو گئی ہے۔اب تک حکومت کو یہ لگ رہا تھا کہ اپوزیشن اس کیلئے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ موجودہ سسٹم کے پرانے کھلاڑیوں کے طور پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ہر صورت اقتدار کی پلیٹ اپنی جانب گھسیٹنا چاہتی ہیں اس لئے سردھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ابتدا میں اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست نشانے پر رکھنے کا مقصد یہی تھا کہ تحریک انصاف کے خلاف ہر حربہ استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ مل جائے۔ پنجاب اور مرکز کی بیوروکریسی کی جڑوں میں بیٹھی مسلم لیگ ن یہ کھیل کھیلنے میں تاک ہے۔ ابتدائی ڈیڑھ برس میں عمران خان خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس چیلنج سے نمٹنے میں مصروف عمل رہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال ملک میں اشیا خورونوش کی قیمتوں کے کنٹرول میں کاہلی اور عدم دلچسپی ہے۔نچلی سطح پر مافیاز کو کھل کر کھیلنے کی اجازت اس لئے ملی کہ اعلیٰ افسران نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بڑے بڑے بیوروکریٹس یہ عذر پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ جی احتساب کے ڈر سے بیورو کریسی نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔جس کا دامن صاف ہو اسے احتساب کا کیا ڈر؟ اب بھی بیوروکریسی تحریک انصاف کے باقاعدہ کنٹرول میں نہیں ہے۔لیکن پھر بھی حالات پہلے جیسے نہیں ہیں۔مسلم لیگ ن کی طرف بیورو کریسی کو مسلسل اشارے دیئے گئے کہ یہ حکومت کسی وقت بھی جا سکتی ہے لہٰذا پرانی وفاداریوں پر قائم رہیں۔اب تحریک انصاف حکومت کے سخت ترین مخالف تجزیہ کار بھی اس امر پر قائل نظر آ رہے ہیں کہ عمران حکومت اپنے پانچ برس مکمل کریگی۔اسکا سب سے بڑا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے جو اپنے سابقہ کردار کے برعکس نیوٹرل رہ کر جمہوریت کے چلتے رہنے پر آمادہ ہے۔ نواز شریف کے وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد کسی ایڈونچر کی توقع کی جاسکتی تھی۔ لیکن ن لیگ نے اپنے پانچ برس پورے کئے۔ اسی طرح باقی اداروں خصوصاً بیوروکریسی کو سیاست سے بالاتر ہوکر قومی سوچ سے آگے بڑھنا ہو گا۔ڈسکہ الیکشن دھاندلی میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن، دونوں ملوث ہیں۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے برتی گئی غفلت آشکار ہے اس لئے الیکشن کمیشن کی جانب سے ذمہ دار افسران کیخلاف کارروائی کا فیصلہ صائب ہے۔ ابتدا میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کی جانب سے صرف 20 پولنگ اسٹیشنز پر دھاندلی کا الزام تسلیم کر لیا گیا۔ بعدازاں پورے این اے 75 میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ قومی وسائل کا ضیاع ہے۔ مریم نواز کے اندر سے جھلکتے غصہ اور لب و لہجے سے لگتا ہے کہ وہ ہر صورت سسٹم کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہیں انکی اس سیاسی لڑائی میں ملک کا چاہے کتنا بھی نقصان ہو انہیں اسکی پرواہ بھی نہیں ہے۔ شاید انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں کہ انکے اس رویے سے مسلم لیگ ن کی سیاست کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پارٹی کے اندر موجود تقسیم واضح ہے۔جیل میں رہنے کے باوجود شہباز شریف اور حمزہ شہباز مفاہمتی بیانئے پر قائم ہیں۔ مریم نواز کی جانب سے پنجاب میں پارٹی کو ٹیک اوور کرنے کی کوشش سینیٹ الیکشن کے ذریعے ناکام بنا دی گئی ہے۔ پنجاب میں بلامقابلہ سینیٹر کیسے منتخب ہو گئے؟ مریم نواز اس سوال کا جواب نہیں دے سکیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انکی پارٹی پر گرفت صرف مخصوص افراد تک محدود ہے جنہیں سب جانتے ہیں۔ ویسے بھی وہ عوام سے زیادہ اپنے والد کا مقدمہ لڑنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ پنجاب میں بلامقابلہ سینیٹرز کی کامیابی کا کریڈٹ مشترکہ طور پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کو جاتا ہے۔ اس معاملے میں مسلم لیگ ن کی جانب سے حمزہ شہباز کا کرداراہم رہا ہے۔ اب سینیٹ الیکشن خفیہ طریقے سے ہوں یا شو آف ہینڈ کے ذریعے سے لیکن ایک بات طے ہے کہ ووٹ بیچنے اور خریدنے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیراعظم کے ترجمان شہباز گل کی جانب سے دیگر جماعتوں کے پارلیمنٹیرینز سے رابطے میں ہونے کا دعویٰ شرمناک ہے لیکن موجودہ سیاسی نظام کی حقیقت یہی ہے۔ اس معاملے میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی سینیٹ الیکشن کیلئے براہ راست انتخاب کی تجویز درست ہے۔اس سے ان پیراشوٹر سیاستدانوں کا کسی حد تک راستہ روکا جاسکتا ہے جو پارٹی لیڈر کی ذاتی پسند یا خالص سرمائے کی بنیاد پر اعلیٰ ایوان تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مخصوص نشستوں پر خواتین کی سلیکشن بھی اس سے ملتا جلتا عمل بن گیا ہے۔اس کیلئے بھی مؤثر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ سینیٹ الیکشنزمیں سب سے زیادہ اہمیت سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے درمیان مقابلے کو دی جا رہی ہے۔ اسے وزیر اعظم کے خلاف ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دعوؤں کے باجود یوسف رضا گیلانی کی شکست واضح نظر آرہی ہے۔ خفیہ ووٹنگ کی صورت میں مسلم لیگ نے امکانی طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ پچھلے سینیٹ الیکشنزکا حساب چکتا کر سکتی ہے۔ شکست کی صورت میں یوسف رضاگیلانی کا پارٹی کے اندر بطور سابق وزیراعظم ہیوی ویٹ امیدوارکا بھرم بھی ختم ہو جائے گا۔ آصف زرادری کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینیٹر انتخاب کیلئے نامزد کرنا دراصل بلاول کا راستہ بالکل صاف رکھنا ہے۔ پیپلزپارٹی ہو، مسلم لیگ ن ہو یا تحریک انصاف یہ اپنے لئے گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ اب تک جتنا بھی نقصان ہوا ہے عوام کا ہوا ہے۔