مجلس احرار کے زیر انتظام شہدائے ختم نبوت کانفرنس میں مقررین اور شرکاء ختم نبوت اور ناموس رسالت کے حوالے سے ایک مرتبہ دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے قانون بنانے والوں یا کسی بھی قانون میں تبدیلی کا اختیار رکھنے والوں کو بتایا ہے کہ ختم نبوت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ یقینی طور پر ہر مسلمان عقیدہ ختم نبوت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لوگوں کے سوچنے اور کام کرنے کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی چیز پر سب متفق ہیں۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی (سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل) نے واشگاف الفاظ میں انتباہ کیا کہ حکمران، سیاسی جماعتیں اور اپوزیشن اپنی صفوں سے لادین عناصر اور قادیانی نواز لابیوں کو نکال باہر کریں۔ آئین کی اسلامی دفعات کا دفاع ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور توہین رسالت کے مجرمان کی پشت پناہی حکومت ترک کے دے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اسلام مخالف طاقتوں کے ایجنڈے کو مسترد نہیں کیا جاتا اس وقت تک ملک میں سیاسی، معاشرتی اور معاشی استحکام قائم نہیں ہو سکتا۔ مولانا عبدالرؤف فاروقی (سیکر ٹری جنرل جمعیت علماء اسلام (س) نے کہا کہ مارچ 1953میں سب سے زیادہ گولی5،6مارچ کو چلی جب نہتے مسلمانوں کے سینوں کو صرف اس لیے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا کہ وہ سر زمین پاکستان جو کہ کلمے کے نام پر حاصل کی گئی تھی عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ چاہتے تھے۔ مسلمان رہتی دنیا تک منصب رسالت و ختم نبوت اور پاکستان پر قادیانی اقتدار کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گے۔
سید محمد کفیل بخاری نے کہاہے کہ تحریک ختم نبوت کے دس ہزار شہداء نے مال روڈ لاہور سمیت ملک بھر میں خون بہایا جس وجہ سے قادیانی سازشیں دم توڑ گئیں اور ملک پاکستان قادیانی سٹیٹ بننے سے بچ گیا۔ قاری محمد قاسم بلوچ نے کہا کہ قادیانی ایک مذہبی فتنہ ہی نہیں بلکہ سیاسی فتنہ بھی ہے اور بعض سیاسی قوتیں قادیانیوں کی پشت پناہی کرکے ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحد کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ 1953کے دس ہزار شہدائے ختم نبوت نے جنگ یمامہ کی یاد تازہ کر دی تھی ان شہداء کا اصل ہدف ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ اور قادیانی ریشہ داوانیوں کا سد باب تھا۔
کانفرنس کی قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ تحریک انصاف وعدے کے مطابق ریاست مدینہ کے قیام کو یقینی بنائے۔ قادیانیوں کو آئین کے دائرے میں لایا جائے۔ ربوہ میں ریاست در ریاست کا ماحول ختم کیا جائے۔ امتناع قادیانیت ایکٹ پر مؤثر عمل در آمد کرایا جائے اور ربوہ چناب نگر کے سرکاری تعلیمی ادارے قادیانیوں کے حوالے نہ کئے جائیں۔ کانفرنس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتد کی شرعی سزا نافذ کی جائے۔ سودی معیشت کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ حکومت امارت اسلامی کو بلا تاخیر تسلیم کرے۔ڈاکٹر محمد عمر فاروق احررار نے بتایا ہے کہ شہدائے ختم نبوت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ کانفرنسوں کی شکل میں مارچ کا پورا مہینہ جاری رہے گا۔
تحریک ختم نبوت مارچ 1953کے دس ہزار’’شہدائے ختم نبوت‘‘ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مجلس احرار اسلام، تحریک تحفظ ختم نبوت اور دیگر جماعتوں کی اپیل پر آج ملک بھر میں ’’یوم شہدائے ختم نبوت‘‘ عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ مجلس احرار اسلام پاکستان کے امیر مرکزیہ سید محمد کفیل بخاری،نائب امیر پروفیسر خالد شبیر احمد، ملک محمد یوسف،مرکزی سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالدچیمہ،ڈاکٹرشاہد محمود کاشمیری، سید عطاء اللہ شاہ ثالث بخاری، قاری محمد یوسف احرار، ڈپٹی سیکرٹری جنرل میاں محمد اویس، مناظر ختم نبوت مولانا محمد مغیرہ، سید عطاء المنان بخاری، ڈاکٹر محمدعمر فاروق احرار، مفتی تنویر الحسن احرار، حافظ محمد ضیاء اللہ ہاشمی، مفتی عطاء الرحمن، با بائے احرار محمد شفیع الرحمن احرار اور دیگر رہنماؤں نے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، خطباء عظام اور ائمہ مساجد سے پر زور اپیل کی ہے کہ وہ آج کے خطبات جمعتہ المبارک کو 1953کے شہدائے ختم نبوت کے ساتھ منسوب و معنون کریں۔ عبداللطیف خالد چیمہ نے کہا کہ مسلمان رہتی دنیا تک منصب رسالت و ختم نبوت اور پاکستان پر قادیانی اقتدار کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نکاح نامے کے وقت عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت کی شرط پنجاب حکومت کا قابل تحسین اقدام ہے، ہم اس کا پر جوش خیر مقد م کرتے ہیں۔علاوہ ازیں شہدائے ختم نبوت1953کی یاد میں تقریبات اور اجتماعات کا سلسلہ ملک کے طول و عرض میں جاری ہے۔ شہدائے ختم نبوت کانفرنس سے مولانا فضل الرحیم اشرفی،مولانا زاہد الراشدی،مولانا سیف الرحمن،سید محمد کفیل بخاری،مولانا امجد خان،مولانا محب النبی،لیاقت بلوچ،قاری زواربہادر، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مفتی شاہد عبید، علامہ زبیر احمد ظہیر،قاری محمد یوسف احرار، پیر ولی اللہ شاہ بخاری، میاں محمد عفان، میاں محمد اویس، مولانا فداء الرحمن، قاری محمد قاسم بلوچ، مولانا عبدالرؤف ملک نے خطاب کیا۔
گذشتہ دنوں برصغیر کی عظیم و قدیم دینی درسگاہ جامعہ فتحیہ کے صدر سابق ایم پی اے حافظ میاں محمد نعمان سے ملاقات بھی ہوئی۔ میاں نعمان سیاسی و کاروباری شخصیت ہیں لیکن ان کی شخصیت کا مذہبی پہلو دیگر شعبوں پر حاوی ہے اور ان سے ملاقات کی بنیادی وجہ بھی مذہبی تعلق اور اسلام کی خدمت ہے۔ ایم پی اے بھی رہے ہیں دوبارہ بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کے رکن بن سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اپنے بزرگوں کی طرح دین کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ملاقات میں ملکی، قومی و سیاسی صورتحال پر بات چیت بھی ہوئی۔ میاں محمد نعمان نے دینی مدارس خصوصاً جامعہ فتحیہ کی خدمات اور عقیدہ ختم نبوت کے اہم موضوع کو اجاگر کرنے کے حوالے سے نوائے وقت کے کردار کو سراہا اور کہا کہ سائرن میں ہمیشہ ختم نبوت پر دو ٹوک موقف اختیار کیا گیا ہے۔ میاں نعمان کے مطابق نظریاتی لوگ سرمایہ ہیں جو کہ اسلامی تہذیت و تمدن عقائد و نظریات کے حوالے سے جہاد بالقلم کر رہے ہیں۔ایسے دانشوروں کی حوصلہ افزائی کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں دینی اقدار کی حفاظت کے حوالے سے مدارس کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ عقیدہ ختم نبوت دین کی بنیاد اور اساس ہے اس مشن کو آگے بڑھانا نجات کا ذریعہ ہے۔ ہمیں متحد ہو کر اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔