تجزیہ: محمد اکرم چودھری
حکومت نے اپوزیشن سے زیادہ بہتر حکمت عملی کے ساتھ کام کیا ہے۔ حکومت نے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا، ناراض اراکین کو منایا، اتحادیوں سے گلے شکوے دور کیے اور متحدہ اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحادیوں کو ساتھ لے کر مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ اس حکمت عملی میں پاکستان تحریک انصاف کو کسی حد تک کامیابی ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج چار مارچ تک مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی اتحادیوں کا نہ ٹوٹنا ہے۔ باقی تحریک عدم اعتماد آتی ہے، کامیاب ہوتی ہے یا ناکام اس بارے کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے اتحادیوں کو ٹوٹنے سے ضرور بچایا ہے اور یہی حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔ اتحادیوں کے ووٹ ہی سب سے بڑی سپورٹ ہیں۔ جہاں تک تعلق پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کے ٹوٹنے کا ہے یقینی طور پر یہ لوگ جنوبی پنجاب سے ہوں گے۔ اگر وہ پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ کرتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ حزب اختلاف سے حکومت کو حمایت مل جائے۔ جوڑ توڑ جاری ہیں، کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اپوزیشن جتنے بڑے دعوے کر رہی ہے شاید وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا بھی شکار ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے لوگ اپوزیشن سے رابطوں میں رہتے ہیں تو اپوزیشن کے لوگ بھی حکومت سے رابطوں میں رہتے ہیں۔ اس لیے یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کا جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہے۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ چودھری برادران کو میاں شہباز شریف نے گھر کھانے پر بلایا تھا وہ لوگ شہباز شریف کے گھر نہیں گئے، ہمارے پاس چھانگا مانگا اور مری نہیں ہے۔ مولانا شاید بھول رہے ہیں کہ چھانگا مانگا اور مری کی گندی سیاست کی بنیاد رکھنے والے ان کے ساتھ ہیں۔ وہ دوبارہ ملک کو چھانگا مانگا اور مری کی سیاست کے دور میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔