لندن، اسلام آباد، لاہور (عارف چودھری، چودھری شاہد اجمل، نامہ نگار، نیوز رپورٹر) اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں زبردستی تیزی آگئی ہے۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں، تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے جبکہ تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر مسلم لیگ ن نے 38حکومتی ارکان اسمبلی کی حمایت ملنے کا دعوی کیا ہے۔ اپوزیشن کی قائم 9رکنی کمیٹی نے تحریک عدم اعتماد لانے اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرانے کی سفارش کردی ہے۔ اپوزیشن ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر 80سے زائد اپوزیشن اراکین کے دستخط ہیں جس میں پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی، اے این پی، بی این پی مینگل اور دیگر جماعتوں کے ارکان نے دستخط کیے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی تیارکر رکھی ہے، تحریک عدم اعتماد اور اجلاس کے لیے ریکوزیشن کسی بھی وقت جمع کروائی جا سکتی ہے جس کے لیے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے چیمبر کو الرٹ کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مجوزہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیریقینی صورتحال ہے، خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے جب کہ قائد ایوان اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھوچکے ہیں، اس صورتحال کے تناظر میں قائد ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کررہے ہیں۔ اپوزیشن ذرائع نے بتایا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد اور ریکوزیشن کسی بھی وقت جمع کروائی جا سکتی ہے۔ ادھر متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر مسلم لیگ ن نے 38حکومتی ارکان اسمبلی کی حمایت ملنے کا دعوی کر دیا۔ ذرائع کے مطابق 38حکومتی ارکان اسمبلی کی حمایت ملنے کی فہرست سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کو ارسال کر دی گئی۔ ن لیگ نے 10ارکان کو آئندہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے 16ارکان قومی اسمبلی ہمارے ساتھ ہیں۔ مسلم لیگ ن نے ہم خیال حکومتی ارکان کو 3مراحل میں تقسیم کر دیا، پہلے مرحلے میں وہ ارکان ہیں جو حکومتی پالیسوں سے دلبرداشتہ ہیں۔ دوسرے مرحلے میں حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی سوچ رکھنے والے ارکان شامل ہیں۔ تیسرے فیز میں دیکھو اور انتظار کرو کی سوچ رکھنے والے ارکان ہیں۔ اجلاس کی ریکوزیشن جمع کرانے کے بعد سپیکرقومی اسمبلی 15دن میں اجلاس بلانے کے پابند ہوں گے، دوران اجلاس تحریک عدم اعتماد پر7دن میں کارروائی کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں اپوزیشن نے ارکان اسمبلی کو فوری اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کردی۔ ارکان کو کہا گیا ہے کہ وہ ان دنوں میں ملک کے اندر ہی موجود رہیں، اسی طرح سے اپوزیشن کی جماعتوں کی قیادت نے بھی حالیہ دنوں میں مسقل بنیادوں پر رابطے رکھنے اور وفاقی دارالحکومت میں موجود رہنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری کی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی، ملاقات میں عدم اعتماد کی تحریک کی حتمی تاریخ کے بارے میں فیصلہ نہ ہو سکا جو آئندہ دو روز میں کیا جائے گا۔ ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ کے مطابق ملاقات میں ملکی سیاسی صورت حال اور عدم اعتماد کی تحریک پر مشاورت ہوئی، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ملاقات کے دوران بذریعہ فون تمام مشاورت میں شریک رہے۔ اعلامیہ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مسلسل مشاورت جاری ہے، عدم اعتماد سے متعلق قانونی ماہرین کی رائے بھی آچکی ہے، عدم اعتماد کا ڈرافٹ تیار ہوچکا ہے، جس پر ملاقات میں مشاورت ہوئی۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی حتمی تاریخ کا تعین جو آج ہونا تھا شہباز شریف کی علالت کے باعث اب آئندہ ایک دو روز میں ہوگا۔ اعلامیہ کے مطابق موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں ملک جس معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ہے ہم اس عدم اعتماد کے ذریعے اس کو بحال کریں گے۔ قبل ازیں جب آصف علی زرداری ملاقات کے لیے پہنچے تو مولانا فضل الرحمان نے سابق صدر کا استقبال کیا۔ ذرائع کے مطابق دونوں رہنمائوں کے درمیان موجودہ سیاسی صورتحال اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مشاورت ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کے درمیان ملاقات اڑھائی گھنٹے جاری رہی۔ ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری نے مسلم لیگ(ن)کے قائد سابق وزیر اعظم نوازشریف اور مسلم لیگ(ن)کے صدر اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے بھی رابطہ کیا اور چاروں رہنمائوں نے عدم اعتماد کے حوالے حتمی مشاورت مکمل کر لی جس میں تحریک عدم اعتماد کے طریقہ کار اور اس کے مناسب وقت پر تفصیلی مشاورت ہوئی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آصف علی زرداری سے عدم اعتماد تحریک پر مشاورت ہوئی ہے، مشاورت میں میاں محمد شہباز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا کل رات کو ہماری آئینی و قانونی ماہرین کی ٹیم کا اجلاس ہوا طے ہے عدم اعتماد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی جائے گی، مزید بال کی کھال نہ اتاریں، اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف علیل ہیں اور لاہور میں ہیں مزید مشاورت کی ضرورت ہے ایک دو روز میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ شہباز شریف ایک دو روز سے علیل ہیں شہباز شریف کل لاہور میں اپنے گھر مشاورت کریں گے۔ عدم اعتماد کی تحریک آئے گی ایک دو روز میں عدم اعتماد پیش کرنے کا مرحلہ آچکا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم حتمی آخری اقدام پر پہنچ چکے ہیں۔ اپنے ممبران کو بحفاظت پارلیمنٹ رازداری کے ساتھ پہنچائیں گے۔ اپنے ملک کے اداروں سے ہی نہیں اسلامی برادری سے بھی کہوں گا کوئی ملک اب عمران خان کو پاکستان کا نمائندہ مانے اور نہ ان کو وزیراعظم کی حیثیت دیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلاول سفر میں ہیں ان کو حالات کا پتا نہیں۔ چوہدریوں کو شہباز شریف نے گھر کھانے پر بلایا تھا، چوہدری کیوں شہباز شریف کے گھر نہیں گئے، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارے پاس چھانگا مانگا اور مری نہیں ہے قوی امکان ہے اتحادی ہمارے ساتھ ہوں گے۔ تحریک عدم اعتماد میں اتحادیوں کا بھی ساتھ ہوسکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کے بعد کیا اپوزیشن نے آئندہ کے وزیر اعظم کے بارے میں فیصلہ کر لیا ہے یا اس بارے بعد میں فیصلہ کیا جائے گا تو مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں طے کیا جا چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر نواز شریف نے آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کو گرین سگنل دے دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر اپوزیشن کے تین بڑوں میں فوری انتخابات پر اتفاق کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی کو فوری انتخابات پر قائل کرلیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس سے قبل ڈیڈ لاک کے باعث تحریک عدم اعتماد کا معاملہ سست روی کا شکار ہوگیا تھا، پیپلز پارٹی فوری انتخابات کی بجائے آئینی مدت پوری کرنے پر بضد تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی آئینی مدت پوری ہونے کا چارٹر آف ڈیمانڈ دیا تھا۔ ایم کیو ایم اور ق لیگ فوری انتخابات پر راضی نہیں تھیں جبکہ پیپلز پارٹی حکومتی اتحادی جماعتوں کے موقف کی حامی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ عدم اعتماد سے ق لیگ کا تعلق نہیں، ق لیگ، ایم کیو ایم سمیت حکومتی اتحادیوں کے بغیر بھی نمبر پورے ہیں، عدم اعتماد پر جن لوگوں کا ہمارے ساتھ رابطہ ہے وہ پراعتماد ہیں، امپائر کو غیر جانبدار رہنا چاہیے، میری رائے میں عمران خان کے جانے کے بعد حکومت بننی ہی نہیں چاہیے۔ عمران خان کے جانے کے بعد حکومت بنانے سے متعلق محمد زبیر کی بات کا ان کو ہی بہتر علم ہوگا۔نئی حکومت بنانے کا کوئی مقصد ہے نہ کوئی منطق ہے۔ تمام صوبائی حکومتیں رہنے دیں، عدم اعتماد وفاق میں ہورہا ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ الیکشن میں ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہاہے کہ حکومت کو مارچ کے مہینے میں"مارچ آؤٹ" کرینگے، وزیر اعظم کو اندازہ ہو چکا ہے کہ پچ اب انکی بیٹنگ کیلئے سازگار نہیں رہی، اب گیند بھی انہیں نظر نہیں آرہی، عوام دیکھے گی کہ تحریک عدم اعتماد کو پی ٹی آئی کے اندر اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے بھی پذیرائی ملے گی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد کیلئے نمبرز پورے ہیں مگر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں تاخیرکا مقصد صرف اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) اپوزیشن کی سرگرمیوں میں تیزی کے بعد حکومت بھی متحرک ہوگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی سیاسی محاذ پر سرگرم ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ ق کے رہنما اور وفاقی وزیر مونس الہی سے ملاقات کی اور سیاسی صورت حال اور اتحاد کے امور پرگفتگو کی۔ ملاقات کے موقع پر وفاقی وزیر اسد عمر بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران وزیراعظم نے ق لیگ سے معاملات طے کرنے کے لیے وفاقی وزیر اسدعمرکو کو آرڈینیٹر مقرر کر دیا۔ ملاقات کے بعد ایک بیان میں مونس الہی نے کہا کہ کئی نسلوں سے ہمارے خاندان نے وعدوں کی پاسداری کی ہے۔ ملاقات کے دوران پاکستان کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں سیاسی منظر نامے پر ساتھ ساتھ چلنے پر اتفاق ہوا جبکہ مونس الہی نے یقین دہانی کرائی کہ ساتھ ہیں اور مستقبل میں بھی ساتھ چلیں گے۔ خیال رہے کہ وزیراعظم اور مسلم لیگ ق کی قیادت کے درمیان تین دن میں یہ دوسری ملاقات ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے منگل کی شام لاہور میں چوہدری برادران سے بھی ملاقات کی تھی۔ وزیراعظم دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے تناظر میں پنجاب اور خیبرپی کے کے وزرائے اعلی کو اسلام آباد طلب کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی طلبی پر خیبرپی کے کے وزیراعلی محمود خان گزشتہ روز اسلام آباد پہنچ گئے جبکہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار بھی رات گئے لاہور سے شہرِ اقتدار پہنچے۔ ذرائع کے مطابق دونوں صوبوں کے وزرائے اعلی وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر اراکین پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کریں گے اور انہیں سیاسی صورت حال پر اعتماد میں لیں گے۔