وزیر اعظم عمران خان نے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور بڑھتی مہنگائی کی لہر کے باوجود ملک میں تیل اور بجلی کی قیمتوں میں جو کمی کی ہے اسے عوام کیلئے ایک طرح سے مہنگائی کے اس پرُآشوب وقت میں تازہ ہوا کے ایک ایسے جھونکے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جیسے وینٹی لیٹر پر پڑے کسی جاں بلب مریض کو آکسیجن چڑھا دی گئی ہو۔پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں دس روپے جبکہ بجلی کے فی یونٹ کی قیمت میں پانچ روپے کمی کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ احساس پرو گرام کے تحت مستحق خاندانوں کیلئے مالی معاونت کی حکومتی رقم جو بارہ ہزار روپے مقرر تھی میں بھی دو ہزار کا اضافہ کرتے ہوئے اسے چودہ ہز ار روپے کر دیا ہے ۔یہی نہیں بلکہ گھروںکی تعمیر ،کسانوں اور کاروبارکیلئے 407ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے ،انڑن شپ کرنیوالے نوجوانوں کو تیس ہزار روپے کے وظیفے کی فراہمی ،اور سیز اپاکستانیوں کو سرمایہ کاری یا جوائنٹ وینچر کی صورت میں ٹیکس میں پانچ سال کی چھوٹ اور آئی ٹی سٹار ٹ اپ پر 100 فیصد کیپٹل گین ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے قوم کویہ یقین دھانی بھی کروائی ہے کہ آئندہ بجٹ تک پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں کی کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
وزیر اعظم کے اس عوامی ریلیف پیکچ کا دیانتدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک اس وقت مہنگائی کے بد ترین سیلاب میں ڈوبتی کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہا ہے اور مہنگا ئی کنڑول ہونے کی بجائے حد سے بڑھتی جا رہی ہے مگر اس میں اگر قصور وار کا تعین کیا جائے تو حکومت کم اور ادارے زیادہ زمہ دار نظر آرہے ہیں اس لئے کہ قمیتوں کو اعتدال پر رکھنے کے زمہ دا ر ادارے جن میں سر فہر ست کسی بھی صوبے یا ضلع کی انتظامیہ ہوا کرتی ہے وہ قیمتوں کو کنڑول کرنے میں لگتا ہے بالکل دلچسپی
ہی نہیں لے رہی ۔مہنگائی کے حوالے سے دیکھا جائے تو مہنگا ئی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک وہ جو تیل کی بین القوامی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں ہوا کرتی ہے اور دوسری وہ جو زخیرہ اندوزی کی وجہ سے سامنے آتی ہے اگر ملک میں موجودہ مہنگائی کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو یہ پیٹرولیم مصنوعات میں عالمی اضافہ کی وجہ سے کم اور کارخانہ داروں تاجروں کی وجہ سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ بڑھی بھی ہے اور بڑھ بھی رہی ہے اور اگر اس میں بھی دیانتداری سچائی سے بات کی جائے تو کارخانہ داروں تاجروں کی وجہ سے کم اور مقامی انتظامیہ کی وجہ سے زیادہ ہوتی چلی آرہی ہے ۔کہ کارخانے داروں کے کارخانے اور تاجروں کے گودام کسی بھی ضلع ہی میں واقع ہوتے ہیں اور انتظامیہ ہی کا کام بلکہ کام نہیں زمہ داری ہوتی ہے کہ ان پر نظر رکھیں اور زخیرہ اندوزی نہ ہونے دیں مگر مقام افسوس ہے کہ کسی بھی ضلع کی انتظامیہ ،کسی بھی ضلع کیا بلکہ بات کئے دیتے ہیں اسلام آباد انتظامیہ کی کہ اسلام آباد ملکی وفا قی دارالحکومت ہے مگر یہاں تو لگتا یوں ہے کہ جیسے مہنگائی کے حوالے سے انتظامیہ کا وجو د ہی نہیں ۔کسی کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں جس کی جو مرضی وہ اپنی چیز کی قیمت وصول کرے اگر صارف یا گاہک پوچھے بھی کہ بھئی تمیں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ تم جو قیمت چاہے وصو ل کررہے ہو توآگے سے جواب یہی ملتا ہے کہ جو ہمیں پوچھنے والے ہیں وہ ہمیں نہیں پوچھتے ۔اسلام آباد میں دیکھا جائے تو ڈپٹی کمشنر تو موجود ہے مگر شائد انہیں بھی عوامی تکالیف کا احساس نہیں کہ کبھی اسسٹنٹ کمیشنرز کوچلئے اسسٹنٹ کمشنروں کو بھی رہنے دیں اگر کبھی چاہے غلطی ہی سے سہی فوڈ انسپکٹروں کو ہی ہر ہفتے مارکیٹوں زخیرہ اندوزوں کی طرف بھیج دیا کریں تو کم از کم کسی حد تک تو قیمتیں اعتدال پر رہیں مگر کیا مجال کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینگے اوراس تما م تر صورتحال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ گالیا ں حکومت کو پڑ رہی ہیں۔ یہی حال جڑواں شہر روالپنڈ ی کا بھی ہے اور پھر روالپنڈی کیا پورے ملک کا یہی حال ہے کہ کہیں بھی ملک کے چاروں صوبوں میں کہیں بھی کسی بھی ضلع کی انتظامیہ خود ساختہ منصوعی مہنگائی جو تاجروں زخیرہ اندوزوں کی پید ا کردی ہوتی ہے کو ختم کرنے میں مخلص دکھائی نہیں دے رہی ۔ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اگر یہ خود ساختہ مصنوعی مہنگائی جسے اگر بوجہ ختم کرنا ممکن نہیں تو کم از کم کسی حد تک کنڑول ہی ہو جائے تو بھی بہت بات ہے مگر افسوس کہ ا س طرف کسی بھی ضلع کا کمشنر ،ڈپٹی کمشنر توجہ دینے کو تیار ہی نہیں ۔توایسے میں تو پھر مہنگائی تو ہو گی ہی چاہے تیل کی قیمتوںکی وجہ سے ہو یا خود ساختہ زخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہو ۔ حکومت تیار رہے تنقید کیلئے بھی اور عوامی غیض و غضب کیلئے بھی ۔انتظامی افسروں کا کیا وہ تو ووٹ لے کر حکومت کا حصہ نہیں بنے ،بنے گی تو حکومت پر جو ووٹوں کے نتیجے میں معر ض وجود میں آئی ہے تو عوام تو اسے ہی کہیں گے چاہے برُا کہیں یا اچھا کہیں ۔یہاں ہم یہ وضاحت بھی ضرور ی سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی ہدف تنقید بنی کارکردگی پر غور کیا جائے تو گو کہ اس میں دیگر سیاسی معاملات بھی شامل حال ہیں مگر جہاں تک عوامی تنقید کا حکومت کو سامنا ہے تو اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے مہنگائی او ر جیسا کہ ہم اوپربڑی تفصیل سے اس مہنگائی پر بات کر چکے ہیں اس لئے دھرانے کی ضرورت نہیں کہ اگر تیل کی عالمی قیمتوں سے ہونے والی مہنگائی کو چھوڑ کر خود ساختہ مصنوعی مہنگائی پر ہی کنٹرول کر لیا جاتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہی پی ٹی آئی کی ہی حکومت کو اگلے پانچ سال بھی نہ ملیں ۔ دوسر ا یہ بھی کہ گوکہ پانچ دس روپے کا اضافہ خاطر خواہ اضافہ نہیں قر ا ر دیا جاسکتا مگر اگر اسے ملکی معاشی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تویہ حالات اتنی سی کمی کی بھی کسی صورت اجازت نہیں دے رہے تھے لیکن وزیر اعظم نے غریب عوام کی تکالیف کو مد نظر رکھتے ہوئے عوامی ریلیف پیکچ دیا ہے اسے سراہا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم ریلیف پیکچ …تازہ ہوا کا جھونکا
Mar 04, 2022