چین نے قرض فراہم کرنیوالے اداروں اور ممالک کی اجارہ داری پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کی ابتر معاشی صورتحال کی ذمہ دار ایک ترقی یافتہ ملک کی مالیاتی پالیسیاں ہیں۔ چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماﺅننگ نے گزشتہ روز عالمی خبر رساں ادارے بلوم برگ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ چین پاکستان سے اقتصادی اور مالی تعاون کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان کا اقتصادی استحکام برقرار رکھنے‘ وہاں کے عوام کی زندگیوں کوبہتر بنانے اور ترقی کے حصول کیلئے چین پاکستان کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے امریکہ کا نام لئے بغیر کہا کہ ایک مخصوص ترقی یافتہ ملک کی بنیاد پرست مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اور بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک قرضوں میں پھنس کر بے پناہ مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ چین اور پاکستان نے ہر مشکل وقت میں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ چین پاکستان کے معاشی اور سماجی استحکام کی کوششوں میں تعمیری کردار ادا کرنے کیلئے تمام فریقین سے مشترکہ کوششوں پر زور دیتا ہے۔ ماوننگ کے بقول ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کا بڑا حصہ مغربی ممالک کے زیردست تجارتی قرض دہندگان اور کثیرالجہتی مالیاتی اداروں کا ہے جو ان بڑے ممالک کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ انہوں نے اس امر کا تقاضا کیا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قرض دینے والے مالیاتی ادارے اور ممالک پاکستان کی امداد کیلئے آگے بڑھیں اور اپنا تعاون پیش کریں۔
یہ حقیقت تو اظہرمن الشمس ہے کہ آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں پر امریکی پالیسیوں کا غلبہ ہے ۔وہ کسی ملک کیلئے بیل آﺅٹ پیکیج کی منظوری دیتے ہوئے امریکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں اور مقروض ممالک کو جن شرائط کا پابند کرتے ہیں وہ امریکی ڈکٹیشن پر ہی مبنی ہوتی ہیں۔ مالیاتی اداروں کے بیل آﺅٹ پیکیج کا مقصد بھی متعلقہ ممالک کی معیشت کو امریکی خواہشات کے مطابق جکڑے رکھنے کا ہوتا ہے تاکہ ان میں خودداری کی کوئی رمق پیدا نہ ہو سکے اور انکی آزادی و خودمختاری امریکی اشاروں پر ناچتی نظر آئے۔ امریکہ نے اپنے تئیں دنیا کی واحد سپر پاور بن کر دوسرے ممالک کو ڈکٹیٹ کرنا اپنا حق سمجھ لیا ہے جو اپنے مفادات پر تو کوئی زد نہیں پڑنے دیتا مگر دوسرے ممالک کی آزادی و خودمختاری کو پرِکاہ کی حیثیت نہیں دیتا۔ امریکہ نے عالمی قوانین‘ کنونشنز اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے بر عکس خود کو یہ اختیار بھی تفویض کر دیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کسی بھی دوسرے ملک کی سلامتی و خودمختاری پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہر رکن ملک کی مساوی حیثیت تسلیم کی گئی ہے اور ہر ملک کی آزادی و خودمختاری کے احترام کا تقاضا کیا گیا ہے۔ مگر امریکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں‘ فیصلوں اور کنونشنز کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور اس نمائندہ عالمی ادارے کو بھی اپنی امن مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی ایٹمی کلب کے ذریعے دوسرے ممالک کو ڈکٹیٹ کرنے کا وطیرہ اختیار کر رکھا ہے اور اسکی مرضی کے بغیر ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے یا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ممالک امریکہ کی ڈکٹیشن کے تحت ہی اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کی جانیوالی عالمی اقتصادی پابندیوں کے سزاوار ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان‘ ایران اور شمالی کوریا اسکی زندہ مثالیں ہیں جنہیں اپنی ضرورت کی بنیاد پر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول پر عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں آنا پڑا۔ اسکے برعکس عالمی و علاقائی امن و استحکام کی خرابی کا باعث بننے والے ممالک بھارت اور اسرائیل امریکہ کے ”نیلی آنکھوں والے بچے“ قرار پائے ہیں جنہیں پاکستان اور عرب دنیا بالخصوص فلسطین کیخلاف اپنے جارحانہ توسیع پسندانہ اقدامات کیلئے امریکی سرپرستی اور آشیرباد حاصل ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک بھی اپنی قرض پالیسی کا امریکی ڈکٹیشن کے مطابق ہی اجراءکرتا ہے چنانچہ امریکی پالیسیوں کے نتیجہ میں دنیا میں خلفشار بڑھ رہا ہے اور ان امریکی پالیسیوں کے باعث اقوام متحدہ کے غیرمو¿ثر ہونے سے اقوام عالم میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا تصور پنپ رہا ہے۔
بلاشبہ چین کو اس ساری صورتحال کا مکمل احساس و ادراک ہے جو دنیا او رخطے میں طاقت کا توازن امریکہ کے ہاتھوں بگڑنے سے بچانے کیلئے علاقائی اور عالمی تعاون کے راستے ہموار کرتا ہے اور اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف کا رکن ہونے کے ناطے وہ ان فورموں پر امریکی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بندھ باندھنے کا کردار ادا کرتا ہے۔ پاک چین دوستی کا آغاز چونکہ چین کی آزادی کے ساتھ ہی ہوگیا تھا چنانچہ ان دونوں ممالک کے مابین علاقائی ترقی‘ سلامتی اور استحکام سے متعلق مفادات میں بھی اشتراک عمل ہوا اور یہی وہ صورتحال ہے جس نے پاک چین دوستی کو شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند کرکے دنیا کیلئے ضرب المثال بنایا۔ سی پیک کے ناطے آج پاکستان چین دوستی خطے کے امن و استحکام کی بھی ضمانت بن چکی ہے۔ امریکہ کو چین کے اس مضبوط و متحرک کردار اور خطے میں پاک چین دوستی کے ثمرات کے تناظر میں ہی اپنے سپرپاور ہونے کا زعم ٹوٹتا نظر آرہا ہے اس لئے وہ بھارت کی سرپرستی کرکے علاقائی طاقت کا توازن بگاڑنے کی کوشش میں مگن ہے۔
اس تناظر میں ہمارا مفاد تو اسی میں ہے کہ اپنی معیشت کو مستحکم بنانے اور اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے چین اور برادر مسلم ممالک سے مالی معاونت حاصل کرکے آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہماری معیشت اپنے پاﺅں پر کھڑی ہوگی تب ہی ملک کے عوام کی مالی مشکلات اور غربت و مہنگائی کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ چین اس مقصد کے حصول کیلئے بھی ہمارے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے اور پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے قرضوں کی نوبت لانے والے ترقی یافتہ ممالک بالخصوص امریکہ پر پاکستان کی مالی معاونت کیلئے آگے بڑھنے پر زور دے رہا ہے۔ اس کیلئے سب سے پہلے خود چین نے عملی پیش رفت کی ہے اور پاکستان کو غیرمشروط قرض کی خطیر رقم ادا کر دی ہے جس کے باعث پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی ساڑھے 55 کروڑ ڈالر بڑھ گئے ہیں۔ اس تناظر میں چین کی بے لوث دوستی ہمارے لئے نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ پاکستان اور چین کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد بھی ہے اور امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے سامنے پاکستان اور چین کا مشترکہ دفاعی حصار بھی مضبوط ہے۔ پاک چین دوستی کو کسی بدخواہ کی جانب سے کوئی ہلکی سی آنچ بھی نہیں آنے دینی چاہیے۔