ہفتہ، 11 شعبان المعظم، 1444ھ، 4 مارچ 2023ئ

ٹماٹر، کھیرا نہیں مل رہا تو عوام شلجم کھائیں۔ برطانوی وزیر 
یاالٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ ایسے اعلیٰ دماغ وزیر کو فوری طور پر پاکستان بلا کر یہاں کوئی وزارت دی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ ہمارے ایک وزیر اعظم بھی کہہ چکے ہیں کہ میں ٹماٹر اور آلو کی قیمتیں معلوم کرنے کے لیے نہیں آیا۔ اب فرق یہ ہے کہ وزیراعظم کے بیان کے بعد ہمارے عوام نے تالیاں بجائیں۔ مگر برطانوی عوام کے ردعمل کے بعد اس وزیر کا اپنے عہدے پر برقرار رہنا اور آئندہ الیکشن جیتنا اب ممکن نہیں ہو گا۔ اس وقت عالمی سطح پر مہنگائی کی جو لہر چل رہی ہے، اس سے صرف ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں، بڑی بڑی عالمی طاقتیں اور ترقی یافتہ ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں بھی اس وقت اشیائے خورد و نوش خاص طور پر پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے شہری پریشان ہیں۔ اب وزیر موصوف نے انہیں جو اوٹ پٹانگ مشورہ دے کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے، اس کے جواب میں جلد ہی انہیں صرف عوام کے ہی نہیں، حکومت کے بھی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس موقع پر ہمیں اپنے بزرگ سیاستدان اسلم رئیسانی یاد آ رہے ہیں۔ کیا صاف دل اور منہ پھٹ قسم کے سیاستدان ہیں۔ پہلے قوم پرستی، لبرل ازم کے حامی رہے، آج کل مولانا فضل الرحمن کے دست پر بیعت کر کے جے یو آئی میں شامل ہو کر مذہبی رنگ میں رنگے گئے ہیں۔ ان کے منہ سے بھی ایسے بیانات مزہ دیتے تھے۔ ”مہنگائی ہو گی تو قیمتیں بڑھیں گی“ یا پھر سابق وزیر اعظم بھٹو نے جو کہا تھا ”مجھے معلوم ہے جوتے مہنگے ہو گئے ہیں“ مگر یہ جو برطانوی وزیر نے ٹماٹر اور کھیرے کی بجائے شلجم کھانے کا مشورہ دیا ہے خاصہ تعجب خیز ہے کیونکہ کھیرا اور ٹماٹر سلاد میں استعمال ہوتا ہے۔ شلجم کا آج تک کسی نے بھی سلاد میں استعمال نہ کہیں دیکھا ہے نہ سنا ہے۔ ہاں چقندر کی بات کی ہوتی تو شاید کچھ بات بنتی۔ اب عوام کو بھی چقندر اور شلجم کا فرق اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔ 
٭٭٭٭٭
12 عالمی بااثر خواتین میں پاکستان کی عائشہ صدیقہ بھی شامل 
یہ وہ خاتون ہیں جو صرف پاکستان میں ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی ماحولیاتی تبدیلیوں پر پرجوش آواز بلند کرتی ہیں اور ساری دنیا ان کی طرف متوجہ ہے۔ اس کا ثبوت امریکی جریدہ کی یہ رپورٹ ہے جس میں انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف کام کرنے پر عالمی مقبولیت کی بدولت دنیا کی 12 بااثر خواتین میں شامل کیا گیا ہے۔ عائشہ صدیقہ بخوبی جانتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے کرہ¿ ارض پر جو تباہی آ رہی ہے اس سے دنیا کا کوئی ملک محفوظ نہیں ہے۔ انسانی اور جنگلی و آبی حیات کو ان تبدیلیوں کی وجہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ موسم بدل رہے ہیں۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ بڑے بڑے جنگل سمٹ رہے ہیں، زرعی رقبہ کم ہو رہا ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ یہ سب بڑے بڑے صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے پھیلائی جانے والی آلودگی کی وجہ سے ہو رہا ہے اور سزا ترقی پذیر ممالک کو مل رہی ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ 
عائشہ صدیقہ کا تعلق بھی پاکستان سے ہے اس لیے وہ زیادہ بہتر طریقے سے ماحولیاتی تباہی کا اندازہ لگا سکتی ہیں اور وہ اس کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ صنعتی ترقی یافتہ ممالک کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ بے موسمی بارش اور اس کے نتیجہ میں بدترین سیلاب، شدید گرمیاں اور تباہیاں بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ امید ہے عائشہ صدیقہ عالمی برادری اور خود پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے اداروں کو مثبت راہ اختیار کرنے پر مجبور کر سکیں گی تاکہ دنیا اور پاکستان اس ماحولیاتی تباہی سے محفوظ رہ سکے۔ یاد رہے پاکستان دنیا کے ٹاپ ٹین پوزیشن والے ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی تیزی سے تباہی کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔ 
٭٭٭٭٭
عمران خان نے جیل بھرو تحریک ختم کر دی 
ہمارے پاس تو تسلی دینے کے لیے وہ الفاظ ہی نہیں جن کے سہارے ہم چند روزہ جیل بھرو تحریک کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اس کی عالم نوخیزی کی موت پر تحریک انصاف کے ساتھیوں کو دلاسہ دیں۔ سوائے اس کے کہ ہم” حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے“ کہہ کر ان کو تسلی دیں۔ مگر کیا کریں خان صاحب کے اس غیر متوقع یوٹرن نے تو سب کو ہلا کر نہیں رولا کر رکھ دیا اور وہ ہوّنقوں کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں۔ 
جھوٹے وعدے بھی بڑی چیز تھے جینے کیلئے
تم نے وہ شہر تسلی تو نہ ڈھایا ہوتا 
اب کوئی عمران خان کی کس بات پر یقین کرے گا ،وہ تو جس چیز کو برا کہتے ہیں، اچانک اسے ہی پسندیدگی کی سند دے کر اپنا لیتے ہیں۔ ابھی تو جیل بھرو تحریک نے انگڑائی لی تھی جوبن پر آ رہی تھی کہ اس کی موت کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اس وقت عمران خان چڑھتا سورج ہیں۔ ان کے کھلاڑی پرستش کی حد تک انہیں چاہتے ہیں۔ انہیں ان کی غلطی بھی غلطی نہیں لگتی۔ وہ ان کا ہر حکم سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ یہ سب قدرت کی مہربانی کے ساتھ ساتھ ہماری موجودہ حکومت کے مرہون منت بھی ہے جس نے مہنگائی کے سارے 48 سالہ ریکارڈ توڑ کر اپنے آپ کو پاکستان کی ناکام ترین حکومت بنا کر رکھ دیا ہے۔ ورنہ حالات اتنے بھی برے نہیں تھے۔ بس اتحادی حکمرانوں کو ذرا اپنی تجوریوں کے منہ کھولنے تھے جو انہوں نے نہیں کھولے۔ یوں خزانہ خالی ہو گیا۔ آئی ایم ایف نے سو پیاز بھی کھلائے سو جوتے بھی مارے مگر بات ابھی تک نہیں بنی۔ یہ سب باتیں عمران خان کے حق میں جا رہی ہیں اور وہ تمام تر حماقتوں کے باوجود پاپولر ہو رہے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
لانڈھی کراچی میں مردم شماری کی ٹیم کو ڈاکوﺅں نے لوٹ لیا 
اب یہ نوبت آ گئی ہے سندھ میں۔ اس صورتحال میں کون ڈیجیٹل مردم شماری کرے گا۔ سندھ میں جہاں دیہی علاقوں میں ڈاکو راج پوری شد و مد سے قائم ہے اور سکھر میں ایک عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران کہہ بھی دیا ہے کہ یہاں تو اغوا برائے تاوان منافع بخش انڈسٹری بن گیا ہے۔ کیا اس میں رتی بھر بھی شک ہے۔ یہ بات ہمارے سندھ کے حکمرانوں اور انتظامیہ کے لیے تازیانہ عبرت ہے۔ کیونکہ لوگ تو پہلے ہی کہتے ہیں کہ تمام ڈاکوﺅں کے ”گھر“ وڈیروں کے ڈیروں کی طرف جاتے ہیں۔ چلیں یہ غلط ہے تو پھر انتظامیہ اور پولیس ہی رہ جاتی ہے ان کی سرپرستی کرنے والی۔ کراچی اڑھائی کروڑ سے زیادہ آبادی والا سندھ کا دارالحکومت ہے جو ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر دیکھ لیں وہاں کوئی گلی کوئی سڑک محفوظ نہیں۔ موبائل فون اور پرس چھیننا تو وہاں کا کلچر بن گیا ہے۔ کیا شاندار شہر تھا جہاں راتیں جاگتی تھیں، یہ جو رات کو دیر تک جاگنے ، بازاروں میں بیٹھنے یا پھرنے کی بیماری پھیلی ہے ملک بھر میں، یہ کراچی ہی کی سوغات ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ روز اسی شہر کے علاقہ لانڈھی میں ڈاکوﺅں نے مردم شماری کرنے والی ٹیم کو لوٹ لیا۔ ان بیچاروں کے پاس سے سوائے موبائل فونز چند سو روپے پانی کی بوتلیں اور ڈیجیٹل مشین کے اور کیا ملا ہو گا۔ ڈاکو خود ہی شرمندہ ہوئے ہوں گے۔ مگر کیا کریں وضعدار ڈاکو اور چور اب رخصت ہو گئے۔ اب افغانی، ایرانی، افریقی، کرد ، بنگالی ، غیر قانونی تارکین وطن کی بدولت یہ بدقماش لوگ لوٹ مار کرتے ہیں۔ یہ تو کسی کی جیب میں 5 روپے کا سکہ تک نہیں چھوڑتے۔ ان کو نکالے بغیر سندھ اور کراچی میں امن بحال نہیں ہو سکتا۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن