جیل بھروتحریک ۔کے جھروکوں سے 


ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہمارے دوست افتخار چوہدری کی خدمات بھی قابل ذکررہیں۔قدرت کی نوازشات کاابرضیاءالحق پر کھل کربرسا جب روس نے افغانستان میں فوج کشی کی۔قدرت کی رحمتوں کے نزول نے جنرل ضیاءالحق کوامریکہ ،یورپ اورعرب دنیا کی آنکھ کاتارابنادیا۔باالخصوص امریکہ کے ڈالروں کی رم جھم میں جنرل ضیاءاوراس کے ساتھی جرنیل نہال ہوگئے۔یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے عوام کوان ڈالروں میں کوئی حصہ نہ مل سکا۔پوری دنیااب ضیاءالحق کی پشت پر تھی۔اسے حکومت کرنے کے لئے نہ کسی سند جواز کی ضرورت تھی اور نہ مارشل لاءنافذ کرنے کی کوئی پشیمانی۔ایک دورجنرل صاحب ذراموڈ میں آئے تو 1973ءکے آئین کی ایک کاپی پکڑ کرکہنے لگے کہ یہ ہے تمھارا آئین جسے جب چاہوں پھاڑدوں ۔جنرل ضیاءکادورآندھی اورطوفان کی طرح تھا۔تاریخ عالم میں شائد ہی کسی اورحکمران نے اپنے عوام پراتنے ظلم کئے ہوں جتنے ضیاءالحق نے کئے۔اپنے سب سے بڑے مخالف وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر کھینچ کراپنا نام ان حکمرانوں میں لکھوایا جنہیں تاریخ نے کبھی معاف نہیں کیا ۔ایئر مارشل اصغر خاں ایک دبنگ راہنما تھے جن سے اسے خطرہ ہی محسوس ہوتا رہا۔اصغر خاں کومسلسل پانچ سال تک نظر بند رکھاگیا۔سیاسی کارکنوں وکلاءاور صحافیوں کو جیلوں میں ٹکٹیاںلگا کران کے خون اور گوشت کاتماشہ دیکھاگیا۔لاہور کے شاہی قلعے CIA،چونا منڈی ،وادت روڈ،پشاور کے بالاحصاراورکراچی کی جیل میں سیاسی کارکنوں کی جوانیاں پگھلاکررکھ دیں ۔سالہاسال انہیں بیڑیاں پہنا کراندھی کوٹھٹریوں میں رکھا گیا۔امین گیلانی یاد آگئے۔
اپنے ہاتھوں سے مجھے بیڑیاں پہناکے کہا، ایسازیور کبھی پہلے تونہ پہنا ہوگا
اوریہ سب کچھ اسلام کے مقدس نام پر ہوتا رہا ۔ہمیں انصار اور افغانیوں کومہاجر بنا کرپیش کیاگیا۔افغان مہاجر آئے توانصار کے بچوں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھمادی اور انہیں ہیروئن کے نشے کاعادی بھی بنادیا۔ یحییٰ خاں کے بعد اب دوسری بارجماعت اسلامی کی کمائی کے بابرکت دن بھی لوٹ آئے "مردمومن مردحق ۔ضیاءالحق ضیاءالحق"کے نعرے بلند کرتے ہوئے جماعت کے قافلہ سالاروں نے تعلیمی اداروں اورPIAکوفتح کرنے کے علاوہ وہ"دیگر ذرائع"سے بھی خوب دولت کمائی ۔دیگر جماعتیں بھی اقتدار کی راہداریوں کے مزے لوٹ رہی تھیں کہ اتنے میں ملک کے دانشور طبقے اورباشعور سیاسی جماعتوں نے1980 میں MRD(تحریک بحالی جمہوریت) کے نام سے جنرل ضیاءالحق کے خلاف ایک سیاسی اتحادقائم کرلیا۔MRDپاکستان کی سیاسی تاریخ کاطویل ترین اتحاد تھا جوپانچ سال سے زائد عرصہ تک قائم رہا۔اس اتحاد کا مقصد صرف بحالی جمہوریت تھا اوراسی ایک نقطے پر سیاسی کارکنوں نے پھانسی کے پھندوں کوگلے کاہار بنالیا۔خودسوزیاں کیں ،کوڑے کھائے،قلعوں کے عقوبت خانوں اور جیلوں کے قصائی خانوںکوآباد کیا۔1981ءکے اوائل میں کارکنوں کوگرفتار کرنا شروع کردیا گیا۔کچھ جیل میں چلے گئے اور کچھ میری طرح زیر زمین رہ کر جماعتی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہے ۔کبھی ہمارے والدین کو اور کبھی بھائیوں اور قریبی عزیزوں کوتھانے لے جاکربند کردیا جاتا۔ اور ہمارے گھروں کو آسیب زدہ بنا دیا۔دروازوں پر ویرانی پہرہ دیتی ،کوئی ملنے یا تسلی دینے کے لئے بھی نہ آتا۔دوسال کے انتظار کے بعد1983میں MRDنے باقاعدہ طورپر گرفتاریاں پیش کرنے کاسلسلہ شروع کیا ۔14اگست1983کوMRDکی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کے مال روڈ والے دروازے پر میں نے اورسابق صدر پاکستان فاروق لغاری نے گرفتاری پیش کی۔پھر چوہدری اعترازاحسن اور منظورگیلانی نے مینارپاکستان سے گرفتاریوں کاسلسلہ آگے بڑھایا۔یہ جوبڑھتے بڑھتے چاروں صوبوںباالخصوص پنجاب اورسندھ میں تیزی سے آگے بڑھتا گیا۔کراچی والوں نے گرفتاریاں پیش کرنے میں کمال کردکھایا ۔اندرون سندھ اور پھر پنجاب نے کسرپوری کردی۔اب گرفتاریاں پیش کرنے کے اس سلسلے نے اپنا منطقی سیاسی رنگ جمانا شروع کردیا۔اوراگلے ہی سال 1984ءمیں جنرل ضیاءکو اپنی صدارت کی کرسی کو سند جواز عطاکرنے کیلئے صدارتی ریفرنڈم کرانا پڑگیا۔سوال یہ کیاگیا کہ اگر آپ ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو اس کامطلب ہوگاکہ میں (جنرل ضیاء) مزید پانچ سال پاکستان کاصدر ہوں گا۔عوام کی اکثریت نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تو تمام پولنگ بوتھ خالی ہوگئے ۔سڑکیں سنسان اور ویران نظر آنے لگیں ۔حبیب جالب نے لکھا کہ 
ہرسوہوکاعالم تھا،جن تھا یا ریفرنڈم تھا
مگر اس کے باوجود شام کو جونتائج آئے اس کے مطابق ملک کے 90٪عوام نے ضیاءالحق کو پاکستان کاصدر" چن" لیاتھا۔اب ضیاءالحق کے اقتدار کی چولیں ہلنا شروع ہوئیں تواگلے سال 1985ءمیں غیر جماعتی انتخابات منعقد کرواڈالے جس کے نتیجے میں اس کی سیاسی موت کا پروانہ لئے اسی کا نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو دروازے پر اس کا انتظار کررہا تھا ۔پھرجونیجو سے گھبراکرجنرل ضیاءنے اسمبلیاں بھی توڑ دیں اوروزیر اعظم جونیجو کوبھی فارغ کردیا۔یہ مئی 88ءتھا،پھر 17 اگست88ءکو ضیاءالحق سیاسی بددیانتی اور ظلم واندوہ کی 11سالہ لمبی انگز کھیل کرخود بھی فارغ ہوگیا۔ایک سلسلہ جوMRDکے قیام اور83 میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں پیش کرنے سے شروع ہوا ایک طویل اورصبرآزما آزمائش کے بعد بالآخرکامیاب ہوگیا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں حکومتوں کے خلاف گرفتاریاں پیش کرنے کاسلسلہ کبھی ناکام نہیں رہا۔جنرل ایوب کے خلاف جوگرفتاریاں پیش کی گئیںاس کے نتیجے میں اس نام نہاد فیلڈ مارشل کو رخصت ہونا پڑا۔ یحیٰ خان بھی رخصت ہوا مگرآدھا پاکستان الگ کر کے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جوگرفتاریاں پیش کی گئیں وہ بھی کامیابی سے ہم کنار ہوئیں۔ جنرل ضیاءکے خلاف دی گئی قربانیاں اور گرفتاریاں بھی بالا آخر کامیاب ہوئیں۔MRDاب تک کاوہ واحد سیاسی اتحادتھا جس نے گرفتاریاں پیش کرکے مارشل لاءکی بجائے جمہوریت کادروازہ کھولااور عوام کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نصیب ہوا۔ (ختم شد)

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن