جب میرے محبوب کا استعارہ ادبی اور سیاسی حلقوں میں زبان زد عام ہوا تھا تو جابر اذہان مشکل میں پڑگئے تھے کہ ماخذ کی زبان بندی کیونکر کریں؟ لیکن وہ کچھ بھی نہ کرسکے،طاقت جتنی بھی ہو اس کا سورج ایک روز غروب ہونا ہی ہوتا ہے، ایک ایک کرکے آمریت کے بت زمین بوس ہوتے گئے لیکن سوچنے والے اذہان نہ صرف آج بھی زندہ ہیں بلکہ تسلسل سے شعور کی شمع جلائے ہوئے ہیں ، انکی زبانیں آج بھی کلمہ حق بلند کرکے مزید توانا ہورہی ہیں ، استعارہ میرے محبوب کی کھڑکی توڑ کامیابی کے بعد نیا نکور استعارہ میرا
معشوق خوب مقبول ہورہا ہے، نیا استعارہ پرانے کو پیچھے چھوڑ کر بت پرستی کے برج خلیفہ پر جا بیٹھا ہے، سابقہ استعارے کے برعکس اس بار استعارہ میرا معشوق سویلین ہے جو ایجنڈے کے تحت عوام کو بلڈی بنا کر کوڑی کوڑی کا محتاج کر کے دن رات خود کو مہاتما منوانے کی ضد کررہا ہے،ایک طرف معشوق اندھے بہرے مریدین سے جیل بھرنے کا حلف لے رہا ہے تو دوسری جانب بغیر پیش ہوئے زبردستی ضمانت کے مطالبے پر اڑا ہوا ہے، اسکے عاشق اسے پچکار رہے ہیں کہ پیش ہوجاﺅ لیکن وہ مان کے نہیں دے رہا ہے، بابا بلھے شاہ کا یہ شعر شاید اسی قسم کے معشوق پر منطبق ہوتا ہے کہ کنجری بنیاں میری ذات نہ گھٹدی، مینوں نچ کے یار مناون دے ، اب سمجھ آگیا ہے کہ آنکھوں پر سیاہ پٹی والی کٹھ پتلیاں حق عشق کیسے ناچ ناچ کر ادا کررہی ہیں ۔ کٹھ پتلیوں کو تو خوف خدا بھی نہیں آتا ہے کہ تاک تاک کر سیاسی ، معاشی اور عوامی مفادات کے بخیے ادھیڑ رہی ہیں، معشوق زہر بجھی تلوار سے دھرتی ماں کے اعضائے رئیسہ کاٹتا رہا جبکہ ارباب بست و کشاد منہ میں گھنگنیاں ڈالے خاموش بیٹھے رہے، تغیر کا پہیہ گھوما تو ہواﺅں کا رخ بھی بدل گیا، اقتدار کا تخت کیا ڈولا نام نہاد بہادر تو مارے خوف کے پناہ گاہ میں گھس کر بیٹھ گیا، بلا ناغہ خود اور اپنی رودالیوں کے ذریعے بچاﺅ بچاﺅ کی دھمکی نما
آہ بلند کررہا ہے ، کٹھ پتلیوں نے مدد کرنے کیلئے طلب کیا تو معشوق آنے سے انکاری ہوگیا، اس کے باوجود سوز عشق میں گرفتار کٹھ پتلیوں نے پہروں بیٹھک لگا کر معشوق کو بار بار پیغام دیدار بھیج کر کہلوایا کہ آﺅ زخموں پر مرہم پٹی کروالو ہم نقصان کا مداوا بھی کریں گے ، گیت بھی گایا گیا کہ آﺅ حضور تم کو ستاروں میں لے چلیں ، دل جھوم جھوم جائے بہاروں میں لے چلیں لیکن معشوق ہٹ دھرم نکلا ، پھر کہا گیا تمہیں قسم ہے آجاﺅتو وہ بولا مجھ پر کوئی قسم لاگو نہیں ہوتی، کہا گیا عاشق کی پکار پر آمین کہنا فرض ہے وہ بولا فرض پورے کرنا تم پہ قرض ہے، کہا گیا کہ ہم تمہیں آزادی کی کرنسی ہاتھ میں تھمانا چاہتے ہیں آکر وصول کرلو، وہ بولا تم حق نثار زدگی ادا کرو ،واٹس ایپ کے زمانے میں مجھے بلا کر کیا کرنا چاہتے ہو ؟جو کچھ بھی دینا ہے آن لائن ٹرانسفر کر دو ، پہلے بھی تو واٹس ایپ پر سارے معاملات حل کرلیا کرتے تھے، کہا گیا شام ڈھلے آجاﺅ تمہاری شب رنگین بنا دیں گے، رات کو نیند کی دیوی تم پر مہربان نہ ہو تو تم صبح سویرے آجانا تخلیے میں مل لیں گے ، کوئی بھی غریب سائل تمہارے پاس پھٹکے گا بھی نہیں ، ویسے تو ہم عام لوگوں کیلئے دس بجے سے پہلے نہیں آتے۔ تمہارے لئے صبح آٹھ بجے دستیاب ہوں گے ، اگر کہو تو سب کو چھٹی دیدیں اور تنہا ہی مل لیتے ہیں، تمہاری رسوائی کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم سر کے بل چل کر بھی آنے کو تیار ہیں اس لئے یہ آپشن کینسل ہی سمجھی جائے،میرے معشوق اگر تم سب کے سامنے نہیں آنا چاہتے، شرم آتی ہے تو بیری زمانے سے نظر بچا کر آجاﺅ،اپنی مرضی کے وقت ہی صحیح لیکن آ تو جاﺅ،کسی پرائیوٹ جگہ پر ملنا ہے تو وہ بتادو اس کا بھی بندوبست ہوسکتا ہے، اب کیسے بتائیں کہ دور دور سے اور ٹی وی پر تمہیں دیکھ کر ہمارا رج نہیں ہورہا ،ہم تمہیں لائیو دیکھنا چاہتے ہیں،نارمل روٹین میں تو تم نے آنا نہیں ہے اب تم پھنس ہی گئے تو اس بہانے ہم ملاقات بھی کرلیں گے ، ہم تمہارا واٹس ایپ نمبر بھی لے لیں گے اور کبھی کبھی دل کی باتیں کر لیا کریں گے،ہاتھ ملانے اور گلے لگنے کو بہت دل کررہا ہے،اہل خانہ سے وعدہ بھی کرلیا ہے اس لئے وہ بھی بے چین ہیں ، ہم سب تمہیں روبرو ملنے اور تمہارے ساتھ سیلفیاں لینے کیلئے بے قرار ہیں،دیکھو میں نے ان سے وعدہ کرلیا ہے تم نے اس وعدے کی تکمیل میں رکاوٹ نہیں بننا ہے ،اگر تمہیں کسی قسم کا ڈر ہے تو کھلم کھلا کہہ دو بڑے داروغہ جی کے ذریعے محافظوں کی پلٹن بھیج دوں؟