اسحاق ڈار ناکام کیوں ہوئے؟  

imran
تحریر، عمران الحق۔لاہور
چند ماہ قبل وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اعلان کیا تھا کہ سودی معیشت کے خاتمے کے لئے کام کریں گے، اس اعلان کے بعد ان کی بات کو بہت سراہا گیا تھا، میں نے بھی اپنے ایک کالم میں اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا تھا، مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی گی ویسے ویسے یقین ہوتا چلا جا رہا ہے کہ وہ سب محض عوام کو گمراہ کرنے اور لوگوں کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ آج ملک کی معاشی صورتحال جتنی گھمبیر ہو چکی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ آئی ایم ایف عملا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکا ہے۔تازہ صورتحال کے مطابق سودی معیشت کے خاتمے کے دعویدراوں نے شرح سود 20فیصد کر دی ہے۔1996کے بعد ملک میں شرح سود سب سے زیادہ ہو چکی ہے۔پی ڈی ایم کی حکومت کی بدترین معاشی پالیسیوں نے عوام کی زندگی اجیرن اور ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ملکی قرضوں میں 14ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ملکی معیشت کو سنبھالنا موجودہ آئی ایم ایف کے غلام حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔ کفایت شعاری کا درس دینے والے وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر نے 7کروڑ کم کرنے کی بجائے سا7.5 کروڑ مزید مانگ لئے ہیں۔ حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاذ کھل کر سامنے آچکا ہے۔ وزیر اعظم ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کی بجائے تمام اسٹیک ہولڈرزکو اعتماد میں لے کر ایسی پالیسیوں مرتب کریں جن سے ملکی معیشت سنبھل سکے۔ پاکستان تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہا ہے، معاشی بحران سنگین ترین ہو چکا ہے۔اگر بروقت قابو نہ پایا گیا تو ملکی سلامتی کو خطراک لاحق ہو سکتے ہیں۔ عوام نے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو آزما لیا ہے، عوامی مشکلات کے حل اور پائیدار معیشت کے لئے ان ظالموں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ موڈیز نے ریٹنگ کم کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہو سکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ملک و قوم کو محب وطن قیادت کی اشد ضرورت ہے جو پاکستان اور عوام کو بحرانوں سے نکال سکے۔
المیہ ہے کہ امریکی جریدے بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے یومیہ 50لاکھ ڈالرز افعانستان سمگل ہو رہے ہیں، دسمبر2021 میں ڈالر 127افغانی روپے کے برابر تھا  جو کہ اب مسلسل ڈالر کی سمگلنگ کی وجہ سے 89روپے کے برابر ہو چکا ہے۔افغان کرنسی دنیا کی مضبوط ترین کرنسی بن چکی ہے۔افغان کرنسی شرح مبادلہ میں پاکستانی روپیہ سے بہتر،جبکہ پاکستانی روپے کی قدر 37فیصد کم ہو چکی ہے۔ ناقص امیگریشن، تجارتی پالیسیوں میں سقم اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو کھلی چھوٹ اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ ملک میں مہنگائی نے 48 سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔گزشتہ تین ماہ کے دوران جس طرح بے رحمانہ انداز میں اشیا ئ￿  ضروریہ کی قیمتوں کو بڑھایا گیا ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی، اشیائ￿  خوردونوش کی قیمتیں 34فیصد تک اور بجلی 52فیصد تک مہنگی ہوچکی ہے۔ پٹرول کی قیمت میں مسلسل اضافہ، ملک بھر میں 80فیصد پٹرول پمپس بند ہو چکے ہیں، حصول کی خاطر شہری خوار ہو رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹروں نے کرایوں میں 62فیصد تک اضافہ کردیا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے ڈنگ ٹپاؤاقدامات سے مدت پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرنے کے لیے واضح لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ کوئی ایک سیکٹر بھی ایسا نہیں جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جائے۔  موجودہ حکمرانوں کے پاس عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں نے ملک کو دیوالیہ پن کے قریب پہنچادیا ہے۔معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے میثاق معیشت کرنا ہوگا۔ اتحادی حکومت مہنگائی کے خاتمے اور عوام کو ریلیف دینے کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی تھی مگر بد قسمتی سے وہ بھی سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ ملک بھر میں سطح غریب سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح 33فیصد تک جاپہنچی ہے۔  ماضی میں چائے بسکٹ والی کابینہ کے ارکان توشہ خانہ میں اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث نکلے ہیں۔جب تک کرپٹ افراد اسمبلیوں میں موجود ہیں ملکی معیشت ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی پاکستان کے اندر کوئی کفایت شعاری کی مہم کامیاب ہو سکتی ہے۔ کرپشن کے قلع قمع کے لئے احتساب کے ادارے مضبوط اور سیاسی دباؤ سے بالا تر ہونے چاہیں،بصورت دیگر حالات تبدیل ہونے والے نہیں۔اب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔حکومت نے روایتی انداز میں عوام کو رمضان پیکج دینے کا اعلان کیا ہے۔جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

ای پیپر دی نیشن