کراچی ( اسٹاف رپورٹر )ڈاکٹر محمد اجمل خان انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلوفائٹ یوٹیلائزیشن جامعہ کراچی کے زیر اہتمام اور سلیم حبیب یونیورسٹی کراچی اور نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر ٹنڈوجام کے اشتراک سے منعقدہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان: موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں نمکین وسائل سے استفادہ‘‘ کی اختتامی تقریب سے مختلف ممالک کے ماہرین جن میں امریکہ،روس،چین،بنگلہ دیش،ملائشیائ،پاکستان،برطانیہ،ایران ودیگر شامل ہیں کے ماہرین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی،معدوم ہوتے وسائل اور موسمیاتی تبدیلیوں نے دنیا بھر کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ موجودہ زرعی پیداوار کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہوگی جو بڑھتی ہوئی زمینی شوریدگی،ماحولیاتی تبدیلیوں اور انسانی آبادی کے دباؤ کے باعث مشکل نظر آتاہے۔اس ضمن میں غیر روایتی ہیلوفائٹ فصلوں کی شورزدہ زمینوں پر کاشت سے ان مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔موجودہ اقتصادی صورتحال اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں آنے والی دودہائیوں میں شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے تدارک کے لئے متبادل اجناس اور مویشیوں کے لئے سستا چارہ ناگزیر ہوچکاہے۔جامعہ کراچی کے تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ ادارے کے تحت تھر کے صحرا میں نمکین پانی کے ذریعے کی جانے والی ہیلوفائٹ چارے کی کاشت کو ایک بہترین مثال ہے۔ڈاکٹر محمد اجمل خان انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمان گلزار نے کہا کہ پاکستان اور بالخصوص جامعہ کراچی میں سیم وتھورزدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے اور غذائی قلت پر قابونے کے لئے افرادی قوت کی موجودگی کے باوجود ہم دیگر ممالک اور بالخصوص مغرب کی طرف دیکھتے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ ڈاکٹر محمد اجمل خان انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن جامعہ کراچی سائنسی بنیادوں پر اس حوالے سے کام کرسکتاہے جس کا منہ بولتاثبوت بین الاقوامی جرائد میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالات ہیں۔اگرانسٹی ٹیوٹ ہذا کواس کی ضروریات کے مطابق وسائل اور فنڈز فراہم کئے جائیں تو سیم وتھور زدہ زمینو ں کو قابل کاشت بنانے اور غذائی قلت پر قابوپانے میں کافی مددمل سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں ضروریات کے مطابق وسائل اور فنڈز کی فراہمی کی جائے تو پاکستان اور بالخصوص سندھ میں سیم وتھور زدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانا ممکن ہے۔ڈاکٹر محمد اجمل خان انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن جامعہ کراچی کے ڈاکٹر عرفان عزیز نے کہا کہ پاکستان اور ایران کو تقریباً ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ایران میں سیم وتھورزدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لئے سرکاری سطح پر کام ہورہاہے جبکہ پاکستان میں اس کو پس پشت ڈال دیاگیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔کانفرنس میں مقررین کی جانب سے متفقہ طورپر پیش کی جانے والی سفارشات میں کہا گیا کہ حکومت کو سائنس وٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کرنے اور تحقیق کو فروغ دینے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز کی فراہمی سے درپیش مسائل جس میں سرفہرست موسمیاتی تبدیلیاں اور دیگرشامل ہیں پر قابوپایاجاسکتا ہے۔سیم وتھور زدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے اور غیرروایتی فصلوں کی کاشت کے لئے اقدامات کئے جائیں۔متبادل اجناس اور مویشیوں کے لئے سستے چارے کی فراہمی کویقینی بنانے کے لئے حکومت کی معاونت وقت کی اہم ضرورت ہے۔