اقربا پروری جو تباہ کن ثابت ہوئی!

Mar 04, 2024

سکندر خان بلوچ

کسی نے ٹھیک کہا تھا:’’جس کام میں سفارشی شامل ہونگے وہ مشکل سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔‘‘ جیسا کہ آجکل ہماری کھیلوں کی ٹیموں کا حال ہے۔یہی کچھ ہمارے ساتھ کشمیر میں بھی ہوا۔شمالی علاقہ جات گلگت اور بلتستان کی آزادی کی جنگ کی ابتداء تو گلگت سکاؤٹس نے کی بعد میں میجر محمد اسلم (اصغر خان کا بھائی)نے کمان سنبھالی۔اِس جنگ میں پاکستان فوج بھی استعمال نہیں ہوئی تھی پھر بھی اِن مجاہدین نے 82ہزار مربع میل علاقہ آزاد کرالیا جبکہ کشمیر میں سفارشی ملوث ہوئے تو مسئلہ شروع سے ہی اختلافات کا شکار ہوگیا۔
مسئلہ کشمیر تخلیقِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوا۔تقسیم ہند کی متفقہ شرائط کے مطابق کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا۔قائداعظم سمیت سب پاکستانیوں کو یقین تھا کہ کشمیر اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں کرے گا۔ایک مرحلہ پر جب ماؤنٹ بیٹن کشمیر آیا تو اْس نے علی الاعلان کہا کہ اگر کشمیر پاکستان کے ساتھ شامل ہوتا ہے تو بھارتی لیڈرز کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔تقسیم ہند کے بعد کچھ عرصہ تو کشمیریوں نے مہاراجہ کے پاکستان میں شمولیت کے اعلان کا انتظار کیا لیکن جب یہ اعلان نہ ہوا تو کشمیری مسلمانوں میں بے چینی شروع ہوگئی جس سے آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا۔اِس مرحلہ پر پاکستان نے مشہور مسلم لیگی لیڈر میاں افتخارالدین کو سری نگر شیخ عبداللہ کے پاس بھیجا کہ اْسے پاکستان کے حق میں کرے۔شیخ عبداللہ میاں صاحب کا پرانا ساتھی اور دوست تھا۔شیخ صاحب نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے ایک ساتھی بخشی غلام محمد کو پاکستان بھیجا لیکن وہ یہاں سے ویسے ہی گھوم پھر کر چلا گیا۔ اِس نے واپس جاکر ایک عام سی رپورٹ دی جو شیخ صاحب کو پاکستان کے حق میں نہ کرسکی جبکہ شیخ عبداللہ اِسی سلسلے میں جب دہلی گیا تو اْسکاوہاں شاندار استقبال کیا گیا۔اس سے حالات کا پانسہ پلٹ گیا۔
اِدھر جب پاکستان انتظار کر کر کے تھک گیا تو پاکستان نے کشمیرمیں تحریک آزادی کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔مہاراجہ کی اپنی فوج تقریباً 9ہزارتھی جس میں بھی 2ہزار مسلمان تھے جن کے متعلق اْمید تھی کہ وہ تحریک آزادی کے ساتھ آملیں گے۔اب یہاں سے بھی کچھ مجاہدین کشمیر میں داخل کرنے کی تیاری کی گئی۔ اِ س مقصد کے لئے کشمیری مجاہدین کو تیار کیا گیا۔ سردار شوکت حیات خان اس مہم کا کمانڈر مقرر ہوا۔سردار صاحب اْسوقت پنجاب کی کابینہ میں وزیر تھے۔ بنیادی طور پر سردارصاحب ایک ریٹائرڈ کیولری آفیسر تھے جو یحییٰ خان اور جنرل عبدالحمید خان سے دو سال سینئر تھے۔اس مرحلہ پرایک سنیئر آفیسرنے انہیں مجبور کیا کہ اْسکے ایک عزیز خورشید انورصاحب کو بھی کمانڈ میں شامل کیا جائے۔خورشید صاحب مسلم لیگ نیشنل گارڈ کا کمانڈررہ چکا تھا۔ مجبوراً اسے شامل کرنا پڑا۔ اسے وارننگ دی گئی کہ وہ آپریشن یاٹروپس سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے۔اْسکا کام صرف رابطہ بحال رکھنا ہو گالیکن اس شخص کو کمانڈ کا بہت شوق تھا۔ لہٰذا اس نے خزانے سے 40ہزار روپے نکلوائے اور بغیر کسی سے مشورہ کئے وزیرستان سے اسلامی جہاد کے نام پر قبائلی اکٹھے کرنے شروع کر دیئے حالانکہ اْسے اس کام سے منع کیا گیاتھا۔ پھر اْس نے بد تمیزی یہ کی کہ نوشہرہ میں بریگیڈئیر افتخار کے پاس جا پہنچا۔ یہ سارا آپریشن خفیہ طور پر کیا جا رہا تھا اور بہت سی وجوہات کی وجہ سے اِسے خفیہ ہی رکھنا درکار تھا۔ بریگیڈئیر افتخار اِس منصوبہ کا حصہ نہیں تھا۔خورشید انور نے بریگیڈئیر افتخار سے مجاہدین کے لئے ہتھیاروں کی درخواست کی۔ بریگیڈئیر افتخار نے یہ معاملہ اپنے سینئرز کو GHQ میں بتایا۔جس سے انگریز کمانڈر انچیف کو پتہ چل گیا۔ اْس نے فوری طور پر G.H.Qدہلی میں اپنے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل آکنلک کو اطلاع دی۔ اس سے صوبہ سرحد کے گورنر لارڈ گننگھم کوبھی پتہ چلا تو اْس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو اطلاع دی تو یوں ابتداء سے ہی یہ آپریشن مشکلات کا شکار ہوگیا۔خورشید انور صاحب بغیر کسی متعلقہ آدمی کی اجازت کے اب قبائلی لشکر کا کمانڈر بن گیا۔
اگلی بدتمیزی اِس نے یہ کی کہ جس دن کشمیر میں داخل ہونے کا منصوبہ تھا یہ موقع سے غائب ہوگیا۔پتہ چلا کہ پشاور میں کسی مسلم لیگی خاتون سے شادی کر لی ہے اور ہنی مون پر چلاگیا ہوا ہے۔تو یوں اِس شخص کی وجہ سے سارے منصوبے کا ستیاناس ہوگیا۔ مقررہ دن پر مجاہدین کشمیر میں داخل نہ ہو سکے۔ داخلہ کچھ دنوں کے لئے لیٹ ہو گیا۔ بہرحال جب یہ آیا تو اِسے بتایا گیا کہ آپ نے براستہ مظفرآباد آگے بڑھنا ہے لیکن مظفرآباد روڈ پر نہیں جانا اوردوسرا رات کو سفر کرنا ہے۔دن کوبالکل حرکت نہیں کرنی۔ لیکن اس شخص کوچونکہ فوجی کمانڈر بننے کا بہت شوق تھا چنانچہ اس نے کسی آرڈر کی پرواہ نہ کی۔ اِسکے مجاہد ٹرکوں اور لاریوں میں سفر کر رہے تھے اور اِس نے بغیر کسی رکاوٹ کے سڑک پر دن کو ٹرک اور لاریاں دوڑائیں اوربارہ مولاجا پہنچے جہا ں سے سری نگر کا آگے صرف 35میل کا فاصلہ تھا۔
دوسری طرف جب یہ ہنی مون منا رہا تھاتو لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور بھارتی حکومت کو پتہ چلاکہ پاکستان کا قبائلی لشکر کشمیر میں داخل ہو نے والا ہے۔ بھارتی حکومت کے وزیر دفاع سردار پٹیل کی سوچ یہ تھی کہ اْس سے پہلے تک جتنے بھی افغان حملہ آور آئے تھے وہ راستے میں کہیں نہیں رکے بلکہ سیدھے دہلی پہنچے لہٰذا یہ لشکر بھی کشمیر میں راستے میں کہیں نہیں رکے گابلکہ سیدھا دہلی پہنچے گالہٰذا اْس نے اس لشکر کو کشمیر میں ہی روکنے کا فیصلہ کیاجس کے لئے اس نے فوری طور پر کشمیر میں مہاراجہ سے بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ لکھنے کے لئے ایک وفد بھیجا جس میں بریگیڈئیر مانک شا اورICS آفیسر کرشنا مینن شامل تھے۔ادھر مجاہدین جب بارہ مولا پہنچے تو وہ وہاں عید منانے کے بہانے تین دنوں کے لئے رک گئے۔ ان دنوں انہوں نے کچھ لوٹ مار اور قتل و غارت بھی کی۔ انگریزخواتین خصوصاًچرچ کی راہباؤں کو ریپ کا نشانہ بنایا۔
 بارہ مولا کے نزدیک کشمیر کا ہائیڈل پاور پروجیکٹ(بجلی گھر) تھا۔ وہ بھی تباہ کر دیاجس سے سری نگر کو بجلی سپلائی ہوتی تھی۔اِس سے مہاراجہ اتنا خوف زدہ ہواکہ وہاں سے فوری طور پرجموں بھاگنے کے لئے سواری منگوائی۔اتنی دیر میں بھارتی وفد بھی پہنچ گیا۔مہاراجہ کی استدعا تھی کہ مدد کے لئے فوری بھارت فوج بھیجے۔ مہاراجہ چونکہ بہت خوفزدہ تھا اِس لئے اْس نے فوری معاہدے پر دستخط کر دئیے۔پیچھے دہلی میں ماؤنٹ بیٹن نے نمبر 1سکھ بٹالین کو ائیرپورٹ پر سری نگر جانے کے لئے تیار رکھا۔ جونہی وفد واپس پہنچافوج سری نگر کے لئے محو پرواز ہوگئی۔
لشکر تین دن بارہ مولامیں رک کرجب روانہ ہوا تو بقول جنرل محمد اکبر خان سری نگر سے 4میل پہلے بارش کا پانی تھا۔جس سے لشکر آگے بڑھنے سے رْک گیا۔لیکن سردار شوکت حیات کے مطابق لشکر ائیر پورٹ کو چھوڑ کر سیدھا سری نگر شہر پہنچا اوروہاں لوٹ مار شروع کر دی۔وہاں سے آگے اِن کا مقابلہ بھارتی فوج سے ہوا۔بھارتی فوج اتنی دیرمیں اپنی گنز اور لائٹ ٹینکس بھی لاچکی تھی۔ مکمل ائیر سپورٹ بھی حاصل تھی جن سے اس لشکر یاباقی مجاہدین کا مقابلہ ممکن نہ تھالہٰذا انہیں پیچھے ہٹنا پڑااور یکم جنوری 1949ء تک یہ لوگ کشمیر کی موجودہ سیز فار لائن تک واپس آگئے۔ بقول سردار شوکت حیات تو یوں ہم نے اپنی بے وقوفی اور فاش غلطیوں سے کشمیر کھو دیا۔

مزیدخبریں