جمہوری بے اختیاری میں گزری عمر

عمر کی نقدی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ لبریز پیمانہ عمر چھلکنے کوتیارپاتا ہوں۔ کالم نگار ابن انشاء کی طرح ادھار کا آوازہ بھی نہیں لگا رہا۔ ابن انشاء کی سنئیے:
اب عمر  کی  نقدی  ختم  ہوئی 
اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے 
ہے کوئی  جو  دیون  ہا ر  بنے 
ہے  کوئی  جو  ساہوکار  بنے 
دو    چار   مہینے   دن  لوگو 
پر  سود   بیاج  کے  بن  لوگو 
ہاں اپنی جاں کے خزانے سے 
ہاں عمر کے توشہ  خانے  سے 
توشہ خانہ کی بھی خوب رہی۔ ہمارے ہاں یہ بڑے لوگوں کے لئے خاص ہے۔ بعد میں صرف معتوب سیاستدانوں سے اس بارے پوچھ گچھ بھی ہوتی رہتی ہے۔ مقدمہ، تفتیش، عدالتی سماعت، سزا اور آخر میں جیل بھی۔ مرغوب سیاستدانوں سے کچھ سوال جواب نہیں۔ باقی رہے اصلی والے حکمران، ان سے بھلا کون پوچھ سکتا ہے؟ 
آج جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے۔ 29فروری ہے۔ سن 2024ء جبکہ یہ تحریر 4 مارچ کو شائع ہو رہی ہے۔کالم نگار کی عمر عزیز کے 76برس پورے ہو چکے ہیں۔ کورونا سے صحتیابی کو چند برس بیت چکے۔ پنڈے کی اس کے بد اثرات ابھی تک جان نہیں چھوڑ رہے۔ اس مرض کا اچھا پہلو صرف ایک ہی رہا۔بیوی، بچوں،عزیز و اقارب، یار دوستوں کی اپنائیت، نگہداشت اور دعاؤں نے سرشار کر دیا۔ اک روز اپنے معالج پروفیسر ڈاکٹر عاطف کاظمی سے عرض کی۔ پیدل چلنے میں بڑی دقت ہے۔ چند قدموں بعد ہی ٹانگیں حکم عدولی کرنے لگتی ہیں۔ سیڑھیاں چڑھنے سے انکاری رہتی ہیں۔ بہت سے ٹیسٹ تجویز ہوئے۔ کروائے گئے۔ ان کے رزلٹ دیکھ کر بولے۔ الحمد للہ! تمام ٹیسٹ ٹھیک ہیں۔ بولا۔ حضور! لیکن میری ٹانگوں کی نقاہت کا معاملہ؟ جھٹ بولے۔ اسے اپنی عمر کا تقاضا سمجھیں اور اللہ کی رضا بھی۔ حافظے کے ہاتھوں پہلے ہی پریشان ہوں۔ ناتوانی اور بہت سی اوربیماریاں گلے پڑی پاتا ہوں۔ بات اچھی نہ سہی‘ سچی ضرور ہے۔ 
ہوش و حواس وتاب و تواں سبھی جا چکے 
 اب ہم بھی جانے والے ہیں ساماں تو گیا
اللہ کی رضا بھی خوب رہی۔’اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے۔ لائی حیات آئی قضا لے چلی چلے‘۔ مرنے سے پہلے بھی انسانی اختیار کتنا ہے؟ درخت سے بچھڑے خشک پتے کی طرح اسے ہوا جدھر چاہے لئے پھرتی ہے۔ کبھی کبھی من مرضی کا گمان بھی پڑتا ہے لیکن بندہ بیچارہ کتنی مرضی کا مالک ہے؟ ’بات دل سے زباں پہ آتی ہے، بات دل میں کہاں سے آتی ہے‘۔ اس ’’کہاں‘‘کی کھوج میں میرے حضورﷺ معراج تشریف لے گئے تھے۔ کیا پتہ چلا؟ ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ 
’’مکالمات افلاطون‘‘میں درج ہے۔’میں صرف یہ جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘۔ اس قول کو لگ بھگ اڑھائی تین ہزار سال بیت گئے۔ تمام انسانی فکر، تدبر، کشف، وحی کے باوجو دبندہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندے جو جانتے ہیں وہ بتاتے نہیں۔ شاید بتانے کا انہیں اذن بھی نہیں۔ لیکن ہمیں سمجھنے کی سکت بھی کہاں ہے۔ بندہ نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیا ہوگا۔اس لاعلمی کے باعث لمحہ موجود میں کتنا چین ہے۔’تم اللہ کی کن کن نعمتوں کا جھٹلاؤ گے‘۔ 
مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ مرشد پروفیسر فضل حسین نے اس سوال کا جواب یوں دیا تھا۔ 
اک دن ڈونگی نیندر سونا 
مرنا کیہہ اے کجھ وی نئیں 
ترجمہ: موت اک دن گہری نیند سو جانے کے سواکچھ بھی نہیں۔ دوستوں، عزیز و اقارب میں اپنے سے کم عمر بہت سے تھے جنہیں دوسرے جہان جانے کی جلدی تھی۔ سو وہ فارغ ہوئے شتابی سے۔ بہت سے کزن دفنا چکا ہوں۔ عبدالغفار، یحییٰ کمال، عبدالرحیم، حاجی جمیل، یاد کرتا جاؤں تو یاد آتے جاتے ہیں۔پہلے دوست خواجہ صالح کے جواں سال بیٹے کو دفنایا۔ پھر پچھلے برس اسے بھی۔ اعجاز رسول نگری بیچارہ عقیدے کی راہ میں مارا گیا۔ ہمیں کفر قبول ہے لیکن فرقہ ورانہ اختلاف رائے برداشت نہیں۔نوید انور نوید، چوہدری زاہد پرویز کیا نگینے لوگ تھے، جلدی سے موت کی ان گمنام وادیوں کو چل دیئے جہاں سے کوئی کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ نوید انور نوید بار ہال میں داخل ہو تو اس کی جرات، خطابت، دیانت اور وجاہت یاد آتی ہے۔ والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور اپنے پوتے پوتیوں کو دسویں جماعت تک خود اسکول چھوڑنے جاتے رہے۔ ان بچوں کی بہار انہیں دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔ 1970ء میں قوم ’مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی کپڑا اور مکان‘ کے مطالبہ کی راہ چل نکلی تھی۔ پھر جنرل ضیاء نے شب خوں مارا۔ اس نے سیاست بھی ختم کر دی اور درسگاہوں میں سٹوڈنٹ یونینز ختم کر کے سیاسی کارکنوں کی نرسریاں بھی بند کر دیں۔ اور۔۔
اس نے پَر نوچ کر کہاہم سے 
تم کو اتنی اڑان کافی ہے 
اس کی دی ہوئی اجازت میں ’’اڑان‘‘نواز شریف فیملی سے شروع ہو کر نواز شریف فیملی تک ہی ختم ہو جاتی تھی۔ظالم جاتا جاتا اپنی عمر بھی انہیں ہی بخش گیا۔ بڑا بھائی کئی مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہا۔ پھر وزیر اعظم پاکستان بھی۔ اب اس کی بیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب ہے۔ چھوٹا بھائی دوسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان ہو کر کہہ رہا ہے۔غربت، بیروزگاری اور جہالت کے خاتمہ کیلئے ہمیں مل جل کر  جد وجہد کرنا ہوگی۔ حضور!ہم مجبور عوام کی کیا بساط اور کیسا اختیار؟ ماہر اقتصادیات شبر زیدی کے اس جملہ میں ہماری ساری بے اختیاری موجود ہے۔’’ہماری قوم8 فروری کو دن میں مضبوط ہوئی اور اسی رات کمزور ہو گئی‘‘۔ ہم’صرف ’جمہوری بے اختیاری‘‘ سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ کالم نگار کے قلم کی روشنائی یہ لکھتے لکھتے سوکھ گئی ہے کہ جب تک ملک سے جاگیرداری کا خاتمہ نہیں ہوپاتا، ایک فرد کی حد ملکیت مقرر نہیں ہو جاتی، زمین کی ملکیت میں بے مالک لوگوں کے حقوق کا تعین نہیں ہو پاتا، کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ نہیں ہو سکے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...